دریائے کنہار کے کنارے پھر آئے یادیں ادھار لینے

دریائے کنہار کے کنارے پھر آئے یادیں ادھار لینے

رمضان رفیق

دل آج پھر دریائے کنہار کے نینوں سے سکھ پانے چلا آیا ہے۔

جنگل منگل بٹراسی سے گڑھی حبیب اللہ کا پیدل سفر ہو یا گیارہویں نیشنل ہائیکنگ جس میں بشام سے کالام تک 180 کلومیٹر کے سفر کی ہائیک ہو، یا ملکہ کوہسار کے دو چار پھیرے، ہر دفعہ شمالی علاقہ جات کی خوبصورت روح نے دل کو سیراب کیا ہے۔

آج تقریباً 8 سال بعد یہاں کا رخ کیا ہے، دل میں پرانی یادیں موجزن ہیں۔ اس بار سفر کا آغاز لاہور سے ہوا، لیکن شمالی علاقہ جات میں اس کا نقطہ آغاز بالاکوٹ کا ایک ہوٹل ہے۔ دریائے کنہار کے کنارے واقع اس ہوٹل کا نام بھی یاد کرنے کو دل نہیں، بس یہ کہ رات گزر گئی۔ صبح ہوتے ہی میں دریائے کنہار کے کنارے چلا آیا، ہوٹل کے داخلی دروازے کے بلکل سامنے دریا تک جانے والی سیڑھیوں کی نشاندہی کرتا ہوا ایک بورڈ نصب تھا۔ میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا، دریا کے کنارے تک چلا آیا۔

اس دریا کے پانیوں کی طولانیاں ہمارے عہد جوانی کی بے شمار یادگاروں کو سمیٹے ہوئے تھیں، جب ہم ایک رسہ باندھ کر اس دریا کے تیز پانی میں نہائے تھے، ایسا وقت جب بڑوں کی نصیحتیں اثر ہی نہیں کرتیں اور آدمی من چاہے راستے کا راہی بنا رہتا ہے، امجد اسلام امجد صاحب نے کہا تھا کہ

سمے کے سمندر، کہا تُو نے جو بھی، سُنا، پر نہ سمجھے

جوانی کی ندّی میں تھا تیز پانی، ذرا پھر سے کہنا

بس ایسے ہی دریائے کنہار کی جولانی کو دیکھ کر مجھے اپنی جوانی یاد آتی ہے، کئی خوبصورت چہرے تھے جو اب صرف یادوں کے آئینے میں نظر آتے ہیں، وہ ہمارے اسکاؤٹ دوست جو ایسے سفروں کی جان ہوا کرتے تھے۔

بالاکوٹ میں دریائے کنہار کا کنارہ —تصویر رمضان رفیق
بالاکوٹ میں دریائے کنہار کا کنارہ —تصویر رمضان رفیق

دریائے کنہار کا نظارہ — تصویر رمضان رفیق
دریائے کنہار کا نظارہ — تصویر رمضان رفیق

دریا اور سڑک —تصویر رمضان رفیق
دریا اور سڑک —تصویر رمضان رفیق

ان کی یادوں کے دھندلے نقوش پھر سے صاٖف ہونے لگے تھے، مینگورہ کا اختر پٹھان، جس سے کوئی رابطہ ہی نہیں نہ جانے اب کہاں ہو گا، میرا روم میٹ عتیق للہ جو امریکا میں کسی سائنسی ادارے میں کام کر رہا ہے، اسکاؤٹ ایسوسی ایشن کے آج کل کے سیکریٹری زاہد محبوب صاحب اور ایک درجن دیگر دوست، جن کی موجودہ معلوم زندگیاں ان گذرے لمحات سے بہت مختلف ہو چکی ہیں، لیکن دریائے کنہار ان سب یادوں کا امین ہے۔

ہم نے دریائے کنہار کے کنارے کنارے ڈرائیو کرتے ہوئے بابو سر ٹاپ تک جانے کا پروگرام بنایا، آج کے اس سفر میں میرے میزبان ظہیر صاحب ہیں، اور مہمانوں میں میری والدہ اور دیگر رشتہ دار، یہ ایک فیملی ٹؤر ہے، جس میں ایڈونچر کی گنجائش خاصی کم ہے، ہائیکنگ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لہٰذا دریا کے کنارے بسنے والی بستیوں، اور باسیوں کے احوال پر ہی اکتفا کیجیے، بالا کوٹ سے آگے ہمارا پہلا اسٹاپ ناران ہے۔

بالاکوٹ سے ناران کاغان کا راستہ خوبصورتی کا نکتہ آغاز ہے، پہاڑیوں کے دامن سے لپٹی ہوئی بل کھاتی ہوئی کالی سڑک، اور دریائے کنہار کی موجودگی کا جابجا احساس اس سفر کے لطف کو دو بالا کر دیتا ہے۔

دریائے کنہار پر چہل قدمی—تصویر رمضان رفیق
دریائے کنہار پر چہل قدمی—تصویر رمضان رفیق

سڑک کنارے سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ریسٹورینٹ، مقامی پھل فروش اور مقامی باشندے، کنارے کنارے چلتے سادہ لوح لوگ، دور پہاڑیوں پر چرتے ہوئے مویشی، بکریوں کو ہانکتے ہوئے گڈریے، چہرے کو ڈھانپے کام کاج میں مصروف خواتین، جڑی بوٹیاں نکالتے ہوئے فصلوں میں کسان، سڑکوں کی تعمیر میں مصروف راجگیر، زمانے کی سختیاں جھیل چکے کچھ بوڑھے، مستقبل کی تیز دوڑ سے بے نیاز کھیلتے بچے، ماں باپ سے چوری چھپے سیاحوں سے پیسے مانگنے والے شرارتی بچے، بس یوں سمجھیے کہ اس دریا کے ساتھ ساتھ چلنے والی سٹرک پر ایک دنیا آباد ہے۔

گاڑی کی کھڑکی سے ان لوگوں کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ اب بھی سادہ زندگی جی جا سکتی ہے۔ انسان کو جینے کے لیے چاہیے بھی کیا، ایک دو وقت کا کھانا، کچھ گذر اوقات کا سامان، سر ڈھانپنے کو ایک چھت، کئی بار خیال آیا کہ یہاں کہیں ایک گھر بنا لیا جائے، ظہیر بھائی سے پوچھا بھی کہ زمین کی قیمت کیا ہے جو کہ دیہاتی علاقوں میں بہت کم ہے۔ یہاں ایک آدھ گھر بنایا جا سکتا ہے، زندہ رہنے کے لیے، کتاب پڑھنے کے لیے، کسی کی صحبت کے لیے اس سے شاندار جگہ اور کیا ہو گی۔

انہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ سڑک کنارے تازہ انجیر بیچتے چند بچوں پر نظر پڑی۔ گاڑی رکوائی گئی، پتوں سے بنی ہوئی ایک کٹوری میں تازہ انجیر کا پھل رکھا ہوا تھا، بچے نے کہا سو روپے، اور ہم نے قیمت ادا کی، اب اس خوبصورت پریزنٹیشن پر بھاؤ تاؤ تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن کٹوری کے اوپر سے تو خوبصورت اور تازہ پھل کھائے گے لیکن نیچے دیکھا تو کچے دانوں کی صورت میں ہماری سبزی منڈی کی تربیت یافتہ سوچ کا عملی مظاہرہ نظر آیا۔

انیجر اور ناشپاتی بیچتا ایک بچہ —تصویر رمضان رفیق
انیجر اور ناشپاتی بیچتا ایک بچہ —تصویر رمضان رفیق

کنہار کنارے پر واقع مکانات—تصویر رمضان رفیق
کنہار کنارے پر واقع مکانات—تصویر رمضان رفیق

ہم دوپہر کے قریب ناران پہنچے، ہوٹل میں سامان رکھا اور ایک جیپ کرائے پر لی گئی تا کہ جھیل سیف الملوک کے درشن کیے جا سکیں۔

جھیل کا راستہ دشوار گزار ہے جس پر صرف جیپیں ہی جاتی ہیں، کچھ منچلے بڑی گاڑیوں کے زعم میں ان پتھریلے راستوں پر خجل ہوتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال اس تنگ اور کٹھن راستے پر چلنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا، یہاں راستہ مناسب سا کھلا ہے لیکن خاصا پتھریلا، گاڑی میں اچھل کود اور جھٹکے تو خوب لگتے ہیں، لیکن جھیل کی ایک جھلک کی یہ کچھ زیادہ قیمت نہیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جھیل کا حسن ماند پڑ گیا ہے، لیکن میرے خیال میں یہ جھیل اب بھی خوبصورت ہے، اس پر اترنے والی پریوں کی داستانوں کو اس ماحول میں پرکھیں تو لگتا ہے کہ تنہائی میں یہاں اور بھی زیادہ خوبصورتی برستی ہو گی۔

سیف الملوک جھیل لے جانے والا جیپ ٹریک—تصویر رمضان رفیق
سیف الملوک جھیل لے جانے والا جیپ ٹریک—تصویر رمضان رفیق

سیف الملوک کو جاتا راستہ —تصویر رمضان رفیق
سیف الملوک کو جاتا راستہ —تصویر رمضان رفیق

سیف الملوک جھیل—تصویر رمضان رفیق
سیف الملوک جھیل—تصویر رمضان رفیق

ہری بھری پہاڑیوں کے دامن میں پھیلا ہوا سبز مائل پانی اپنے اندر ایک سحر انگیز قوت رکھتا ہے۔ میں نے اپنے ہم سفروں سے کچھ لمحے مستعار لیے اور ایک اونچی جگہ پر چلا آیا، یہاں سے جھیل پر آنے والی جیپوں اور جھیل کو دیکھا جا سکتا تھا۔ وہاں سے مجھے یہ شہر کسی طلسم ہوش ربا کا حصہ لگا، جس میں لوگوں کے چہروں پر اطمینان اور آسودگی کو محسوس کیا جا سکتا تھا، لیکن ان لوگوں میں ایسے بھی کچھ کم نہ تھے جو یہاں آ کر بھی کسی نہر کی طرح چونسا آم کھا رہے تھے یا، بیسن کے پکوڑوں سے شغل کر رہے تھے۔

اس رس بھرے منظر کو پہلے میں نے آنکھوں میں بھرا اور ذائقہ روح تک اتر آیا، پھر میں نے اس کے کچھ مناظر کیمرے میں محفوظ کر لیے۔ جھیل پر ایک ڈیڑھ گھنٹہ گزارنے کے بعد ہم واپس چلے آئے، ہمارا اگلے دن کا پروگرام بابوسر تک جانے کا ہے۔

لیجیے اگلی صبح طلوع ہوئی۔ ہم نے دریائے کنہار کے کنارے کنارے سفر کا آغاز کیا، واہ کیا خوبصورت راستہ ہے، ناران سے نکلیں تو ہیلی پیڈ کے ساتھ ہی دریا میں کشتی رانی کروانے والوں کے اسٹینڈ نظر آتے ہیں۔

ناران سے آگے دریائے کنہار کا نظارہ —تصویر رمضان رفیق
ناران سے آگے دریائے کنہار کا نظارہ —تصویر رمضان رفیق

ناران سے آگے دریائے کنہار میں کشتی رانی — تصویر رمضان رفیق
ناران سے آگے دریائے کنہار میں کشتی رانی — تصویر رمضان رفیق

ناران کے بعد آنے والا جھرنا —تصویر رمضان رفیق
ناران کے بعد آنے والا جھرنا —تصویر رمضان رفیق

آگے چلیے تو آپ کو کئی جگہوں پر جھرنے ملتے ہیں، ہر ایک جھرنے کے پاس سیاحوں کی ٹولیاں اپنے لمحات کو یادگار بناتی نظر آتی ہیں۔ انہی جھرنوں کے ساتھ پھل فروشوں، یا پھر پانی، جوس بیچنے والوں نے اپنے اسٹالز سجا رکھے ہیں۔ راستے میں ایک دو جگہوں پر گلیشیر کے ٹکڑے بھی نظر آتے ہیں، ان جگہوں پر بھی میدانی علاقوں سے آئے لوگوں کا بہت رش ہوتا ہے۔

گلیشیئر کے اس تودے پر مقامی لوگ کچھ سیڑھیاں بنا کر سیاحوں کو تصویر لینے کے لیے جگہ فراہم کرتے ہیں، اسی راستے پر جگہ جگہ مگس بانی کے چھوٹے فارم قائم ہیں، جہاں سے لوگ شہد خریدتے ہیں۔ ہمارے میزبان کے بقول شہد ساٹھ فیصد ہی خالص ہوتا ہے، میں سوچ رہا تھا کہ اتنے زیادہ فارم ہیں اگر یہ خالص بیچیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے، بہرحال یہ مفروضے پر مفروضہ ہے، ہو سکتا ہے کہ ان کا شہد خالص ہی ہو ایک جگہ میں نے شہد چکھا جو مجھے تو میٹھا ہی لگا، کچھ زیادہ ہی میٹھا لگا، مگر میں سفر میں زائد سامان اٹھانے کا عادی نہیں چاہے خالص شہد ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا شہد خریدنے کا ارادہ چھوڑ دیا۔

گلیشیئر کے تودے پر بنائی گئی سیڑھیاں جبکہ کولڈ ڈرنکس فروشوں نے اپنی بوتلیں ٹھنڈی رکھنے کا انتظام کیا ہوا ہے —تصویر رمضان رفیق
گلیشیئر کے تودے پر بنائی گئی سیڑھیاں جبکہ کولڈ ڈرنکس فروشوں نے اپنی بوتلیں ٹھنڈی رکھنے کا انتظام کیا ہوا ہے —تصویر رمضان رفیق

راستے میں آنے والا ایک جھرنا — تصویر رمضان رفیق
راستے میں آنے والا ایک جھرنا — تصویر رمضان رفیق

ایک جیپ جھرنے کے آگے سے گزر رہی ہے—تصویر رمضان رفیق
ایک جیپ جھرنے کے آگے سے گزر رہی ہے—تصویر رمضان رفیق

مگس بانی کا فارم —تصویر رمضان رفیق
مگس بانی کا فارم —تصویر رمضان رفیق

بابو سر ٹاپ پر پہنچنے سے پہلے لولو سر نامی جھیل آپ کا استقبال کرتی ہے، ایک پوری وادی کے دامن پر محیط اس جھیل پر بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد جھیل سے سرگوشیوں میں مصروف ہے، اور ہم دیسیوں کی بھرپور عیاشی کسی بھی پکنک کی جگہ پر جا کر کھانا، پینا ہی ہے اسی لیے کچھ خوانچہ فروش تازہ مکئی کے بھٹے لیے، یا جوسز اور کولڈ ڈرنکس بیچنے وہاں موجود ہیں۔

اس مقام پر محکمہ سیاحت کی جانب سے کچھ انتظامات نظر نہیں آئے۔ دنیا میں جہاں بھی چلے جائیں وہاں اس مقام کی تاریخ و تعریف کے متعلق بورڈز نصب ہوتے ہیں، جن سے ایک طائرانہ نظر میں اس جگہ کے متعلق مستند معلومات مل جاتی ہیں، وگرنہ لوک داستانوں سے ہی توصیف کے پہلو معلوم کرنے پڑتے ہیں، جیسے اس جھیل کے متعلق ظہیر بھائی کا کہنا تھا کہ یہ جھیل اتنی گہری ہے کہ تحقیق کے باجود بھی اس کی گہرائی ناپی نہیں جا سکی ہے۔

لولو سر جھیل —تصویر رمضان رفیق
لولو سر جھیل —تصویر رمضان رفیق

لولو سر جھیل کے آس پاس—تصویر رمضان رفیق
لولو سر جھیل کے آس پاس—تصویر رمضان رفیق

لولوسر جھیل سے آگے چلے تو احساس ہونے لگا کہ موسم شاید کچھ خنک ہونے لگا ہے، لیکن جوں جوں اوپر چوٹی کی طرف جا رہے ہیں سفر اور بھی دلکش ہوتا جا رہا ہے، دریا بھی ایک چھوٹی سی لکیر لگنے لگا ہے، وادیوں کے خد و خال اور بھڑکیلے ہو گئے ہیں، اس سنگل سڑک کے ہر موڑ اور ہر کراس اینڈرینالین کو آوازیں دیتا ہے، کمزور دل حضرات وادی میں دیکھنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن لطف ان لمحوں کا ہی ہے جب آپ اس لمحے کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں، کسی نے کہا کہ اوپر ٹاپ پر کیا ہے، بس پہاڑ ہی تو ہیں، اوپر جا کر کیا کرنا ہے، لیکن پہاڑی سفر میں کوئی قطب مینار نہیں ہوتا، وہاں کا سارا لطف اس کا نشیب و فراز کا سفر ہے۔

لیجیے بابو سر ٹاپ پر آ پہنچے۔ یہاں لوگوں کی ایک کثیر تعداد جمع ہے، پتہ چلا ہے کہ آگے چلاس سے ہنزہ جانے والا راستہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہو گیا ہے لہٰذا سیاحوں کو آگے جانے نہیں دیا جا رہا، اس لیے بھی بابوسر ٹاپ پر لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ ہے۔ یہاں ہوا کا دباؤ قدرے کم ہوتا ہے، جن لوگوں کو سانس کا مسئلہ ہے انہیں تھوڑی پریشانی ہو سکتی ہے جبکہ کچھ لوگوں کو نفسیاتی طور پر ہی پریشانی ہونے لگتی ہے، اس لیے ایسے دوستوں کی دل جوئی کی جانی چاہیے۔

بابو سر کے قریب دریائے کنہار کا کنارہ —تصویر رمضان رفیق
بابو سر کے قریب دریائے کنہار کا کنارہ —تصویر رمضان رفیق

پل پر گزرتی ایک جیپ —تصویر رمضان رفیق
پل پر گزرتی ایک جیپ —تصویر رمضان رفیق

یہاں ہم نے کچھ پندرہ سے بیس منٹ ہی گذارے ہوں گے کہ ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی، جو آہستہ آہستہ تیز ہوتی گئی، بس پھر ہم نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔ واپسی کے راستے میں لالہ زار جانے کا ارادہ شامل تھا، جو ایک جیب کا راستہ ہے، لیکن ماں جی کو جھیل سیف الملوک کے راستے میں گاڑی کے ہچکولوں سے کافی تکلیف پہنچی تھی اس لیے یہ طے ہوا کہ جیب کے راستے کا کوئی سفر نہیں کیا جائے گا۔

چنانچہ ہم اپنی ہی گاڑی کے ذریعے جہاں جہاں جا سکتے تھے گئے۔ واپسی میں ہم دریائے کنہار کے ایک ایسے حصے پر آ رکے جہاں پانی کا بہاؤ قدرے کم تھا، اور وہاں کچھ مقامی لوگ کرکٹ کھیل رہے تھے۔ ہم بھی فیملی کے ساتھ کچھ دیر یہاں رکے، تھوڑا دور ایک چھوٹے سے جوہڑ کے پاس چند مقامی بچوں سے ملاقات ہوئی جو ہر سیاح سے دس روپے کا سوال کرتے ہیں، میں نے چپکے سے ان کی تصاویر بنا لیں۔

ان بچوں کے خوبصورت نین نقش انہی پہاڑی علاقوں کے لوگوں کا مخصوص ورثہ ہے۔ اس کے بعد راستے میں آنے والی آبشار پر رکے، میں نے یہ محسوس کیا، کہ اس سارے سفر میں جیپ کے سفر کے علاوہ میری والدہ بہت خوش رہیں، میں چوری چوری ان کے منہ پر بکھرتی مسکراہٹیں دیکھ کر خوش ہوتا اور پروردگار کا شکر بجا لاتاکہ مالک کائنات نے اپنے ان نظاروں میں کچھ ایسا سکون بھر رکھا ہے کہ انسان کی روح تر و تازہ ہو جاتی ہے۔ دریائے کنہار پہلے بھی کئی یادوں کا امین تھا اب تو اس کے نینوں نے ایسا سکھ دیا جو لازوال ہے۔


رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں