گجرات: وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے نواز شریف کی جی ٹی روڈ ریلی کے دوران پروٹوکول پر مامور گاڑی کی ٹکر سے بچے کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی 3 رکنی انکوائری کمیٹی نے صوبائی حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ پولیس کو ان کے طریقہ کار کے مطابق واقعے کی تفتیش کرنے دیں۔

دوسری جانب کمیٹی نے جی ٹی روڈ عبور کرنے کے دوران کسی نامعلوم گاڑی کی ٹکر سے ایک ریٹائرڈ سپاہی کی ہلاکت کے واقعے میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کی ریلی میں موجود گارٹی کے ملوث ہونے کو مسترد کردیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے مذکورہ واقعے کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) ابو بکر خدا بخش کی سربراہی میں ایک 3 رکنی اعلیٰ سطحی انکوائری ٹیم تشکیل دی تھی جس میں سابق انسپکٹر جنرل جیل پولیس کوکب نعیم وڑائچ اور ایڈیشنل ہوم سیکریٹری طاہر شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: نوازشریف کی ریلی: ایلیٹ فورس کی گاڑی کی ٹکر سے بچہ جاں بحق

ٹیم نے لالہ موسیٰ میں اس مقام کا دورہ بھی کیا تھا جہاں گاڑی کی ٹکر سے بچہ جاں بحق ہوا تھا اور ایک روزہ طویل تحقیقات کے بعد تفصیلی رپورٹ تشکیل دی۔

تحقیقاتی ٹیم کو میڈیا کی جانب سے رپورٹ کیے جانے والے دونوں واقعات کی تحقیقات کا ٹاسک دیا گیا تھا۔

تحقیقات کی پیش رفت سے منسلک اہم ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کمیٹی نے اپنی تحقیقات میں تقریباً اُن ہی عناصر کی نشاندہی کی ہے جن کے بارے میں 12 سالہ احمد چغتائی کی ہلاکت کے حوالے سے میڈیا نے 11 اگست کو رپورٹ کیا تھا۔

ٹیم نے مقتول بچے کے اہل خانہ اور عینی شاہدین کے بیانات بھی ریکارڈ کیے۔

انکوائری ٹیم نے صوبائی حکومت کو تجویز دی کہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات پولیس کے حوالے کی جائیں تاکہ وہ اپنے طریقہ کار کے مطابق اس واقعے کی تفتیش کرسکے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی ریلی: بچے کی ہلاکت سے متعلق تحقیقات مکمل

علاوہ ازیں ٹیم نے 50 سالہ ریٹائرڈ سپاہی خالد حسین کے ہلاک ہونے کے واقعے کی تحقیقات بھی کیں اور بتایا کہ انہیں نواز شریف کی ریلی میں موجود کسی جیپ یا کار نے ٹکر نہیں ماری تھی بلکہ وہ موٹر سائیکل کی ٹکر سے ہلاک ہوئے۔

ذرائع کے مطابق خالد حسین کے ورثا نے حادثے کے ذمہ دار موٹر سائیکل سوار کو معاف کردیا اور بتایا گیا ہے کہ خالد حسین کا خاندان موٹر سائیکل سوار کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

ٹیم نے صوبائی حکومت کو یہ تجویز بھی دی کہ بچے کی ہلاکت کے کیس میں ڈرائیور کو قانونی چارہ جوئی کے لیے گرفتار کیا جانا چاہیے، مذکورہ رپورٹ آج بروز منگل وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کیے جانے کا امکان ہے۔


یہ رپورٹ 15 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں