اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمام ذیلی عدالتوں کو متنبہ کیا کہ معمولی نوعیت کے کیسز میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) سے متعلق دفعات شامل نہ کی جائیں۔

عدالت عظمیٰ کے جج دوست محمد کھوسہ کی جانب سے 22 صفحات پر مشتمل ایک فیصلے میں کہا گیا، ’عدالتیں دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لیے سخت قوانین کے نفاذ کو نظر انداز نہیں کریں گی لیکن انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کو قتل اور اقدام قتل کے مجرموں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے وسیع نہیں کیا جائے گا'۔

جسٹس دوست محمد خان، جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں قائم ہونے والے سپریم کورٹ کے اُس بینچ کا حصہ تھے جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے 20 مئی 2009 کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سنوائی کی تھی۔

واضح رہے کہ 24 اپریل 2001 کو گجرانوالہ کے نواحی گاؤں بہروپ گڑھ میں نذیر احمد، محمد سلیم، غلام عباس اور 9 سالہ سنبل کو ہلاک جبکہ تین بچوں سمیت 9 افراد کو زخمی کردیا گیا تھا۔

علاقہ پولیس نے اس کیس میں اے ٹی اے کے سیکشن 6 اور سیکشن 7 اے کو شامل کردیا تھا جس کے بعد مجرموں کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت کیا گیا، بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے اس واقعے میں ملوث 6 افراد کو 20 مئی 2009 کو سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔

مزیر پڑھیں: ’انسداد دہشت گردی آپریشنز پر استطاعت سے زیادہ خرچ‘

جسٹس دوست محمد کھوسہ کے 22 صفحات پر مشتمل فیصلے کے مطابق ایک قتل کے کیس میں اے ٹی اے کی دفعات شامل کرنے سے مرحوم شخص کے لواحقین قصاص اور دیت سے محروم ہوجائیں گے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ اگر کیس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی جائیں گی تو پھر قصورواروں پر لگایا جانے والا جرمانہ قومی خزانے میں چلا جاتا ہے اور مناسب وجوہات کے بغیر یہ اسلامی احکامات کے تسلیم کردہ حقوق کے خلاف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انسداد دہشت گردی کارروائیوں کیلئے خواتین اہلکاروں کی بھرتی

جسٹس دوست محمد خان لکھتے ہیں کہ یہ معاوضہ مقتول شخص کے قانونی لواحقین کا بنیادی حق ہے جسے اے ٹی اے کی دفعات کو شامل کر کے ان سے چھینا نہیں جا سکتا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اگر کبھی قتل، اقدام قتل کے کیسز میں اے ٹی اے کی دفعات شامل کرنا لازم ہو تو وہاں ’دہشت گرد‘ اور ’دہشت گردی‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوگا۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ عوام، عبادت گاہوں، تعلیمی اداروں، سیکیورٹی اداروں، مسلح افواج اور قانون کے خلاف دہشت گردی سے متعلقہ جرائم کی مکمل فہرست واضح طور پر قانون بنانے والوں کی نمائندگی کرتی ہے۔

جسٹس دوست محمد خان کے اس فیصلے میں بتایا گیا کہ معمولی جرائم بھی تباہ کن اور لرزہ خیز ہوسکتے ہیں لیکن ان وجوہات کی بنا پر انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔


یہ خبر 15 اگست 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں