'گولڈ اسپانٹک سر کرنے کی کامیابی پاکستانی خواتین کے نام'

اپ ڈیٹ 21 اگست 2017
عظمیٰ یوسف نے گلگت بلتستان میں واقع 7 ہزار 27 میٹر بلند چوٹی کو سر کیا—۔
عظمیٰ یوسف نے گلگت بلتستان میں واقع 7 ہزار 27 میٹر بلند چوٹی کو سر کیا—۔

کہتے ہیں ہمت اور لگن ہو تو انسان کچھ بھی کرسکتا ہے اور ایسا ہی کچھ کر دکھایا پاکستانی خاتون کوہ پیما عظمیٰ یوسف نے، جنہوں نے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں واقع 7 ہزار 27 میٹر بلند چوٹی کو سر کرکے ملک کا نام روشن کردیا۔

اسپانٹک نامی اس بلند چوٹی کو 'گولڈ اسپانٹک' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جسے پہلی مرتبہ کسی پاکستانی خاتون نے سر کیا ہے۔

عظمیٰ یوسف نے ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ اس چوٹی کو سر کرنا ایک مشکل کام تھا، لیکن انھوں نے ہر قسم کے چیلنجز کا سامنا کرکے اس کامیابی کو پاکستانی خواتین کے نام کیا۔

عظمیٰ نے بتایا کہ انھوں نے 3 اگست کو اسلام آباد سے اسکردو کے لیے سفر کا آغاز کیا اور پھر سب سے پہلے ارندو پہنچیں، جہاں سے انہوں نے گلیشیئرز کے اوپر سے ہوتے ہوئے بیس کیمپ پہنچ کر پہلی کامیابی حاصل کی جوکہ ایک مشکل ترین سفر تھا۔

انھوں نے کہا، 'جب میں بیس کیمپ پہنچی تو وہاں پر دو غیر ملکی کوہ پیماؤں کی ٹیم موجود تھی، لیکن صرف میں واحد پاکستانی تھی اور یہ جان کر مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی اور ساتھ ہی سفر کے دوران چیلنجز کا سامنا کرنے کا تجربہ بھی ہوا'۔

مزید پڑھیں: پہلی پاکستانی خاتون نے اسپانٹک کی چوٹی سَر کرلی

ان کا کہنا تھا کہ بیس کیمپ کے بعد دوسرا مقام کیمپ 1 ہے اور اگر وہاں تک پہنچنے میں آپ کی طبیعت خراب ہوجائے تو باقی کیمپس کو سر کرنا ناممکن ہوجاتا ہے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں خیریت سے اُس مقام تک پہنچی اور پھر ایک رات وہاں پر قیام بھی کیا۔

عظمیٰ یوسف کا کہنا تھا کہ کیمپ 1 سے وہ دوبارہ بیس کیمپ کی جانب آئیں اور اس دوران یہ تجربہ ہوا کہ یہاں کس طرح کے خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

'ایک لمحے کیلئے لگا کہ میں خلاء میں ہوں'

'یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر 2 گھنٹے سے زائد تک نہیں رہا جاسکتا، لیکن اس چوٹی پر پہنچنے کے بعد واپس آنے کا دل نہیں کررہا تھا'
'یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر 2 گھنٹے سے زائد تک نہیں رہا جاسکتا، لیکن اس چوٹی پر پہنچنے کے بعد واپس آنے کا دل نہیں کررہا تھا'

اس سوال پر کہ جب آپ چوٹی پر پہنچیں تو آپ کے جذبات کیا تھے اور وہاں کا نظارہ کیسا تھا؟ عظمیٰ نے بتایا کہ 'وہاں تک پہنچنے کا سفر رات کے وقت شروع کیاگیا اور منزل تک پہنچتے پہنچتے صبح ہوچکی تھی، اس وقت شدید سردی تھی، لیکن جیسے ہی میں چوٹی پر پہنچی تو ایک لمحے کے لیے لگا کہ جیسے میں خلاء میں ہوں اور باقی سب پہاڑ مجھ سے نیچے محسوس ہورہے تھے'۔

انھوں نے کہا کہ چوٹی تک پہنچنے کے اس سفر میں ان کی قوت کافی کم ہوچکی تھی، لیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے خود کو مضبوط کیا تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس چوٹی پر پہنچتے ہوئے اگر میں ہمت ہار جاتی تو صحت کو بہت سے مسائل ہوسکتے تھے، کیونکہ سب سے بڑا مسئلہ وہاں آکسیجن کی کمی ہے جس کے باعث سانس لینا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے'۔

عظمیٰ یوسف نے بتایا کہ 'یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر 2 گھنٹے سے زائد تک نہیں رہا جاسکتا، لیکن اس چوٹی پر پہنچنے کے بعد واپس آنے کا دل نہیں کررہا تھا، کیونکہ وہاں سے جو قدرتی مناظر دکھائی دے رہے تھے وہ بہت ہی سحر انگیز تھے'۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک خاتون ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں کن کن مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ سفر کے دوران خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست رکھنا بہت ضروری ہے، تاکہ آپ اپنی کمزوری کو ظاہر نہ ہونے دیں۔

یہ بھی پڑھیں: خاتون سائیکلسٹ کا قومی ریکارڈ

عظمیٰ کا کہنا تھا کہ سفر کے دوران مردوں کے ساتھ رہنا بھی ایک چیلنج ہے، لہذا اس دوران آپ کو خود کو ایک خاتون نہیں، بلکہ کوہ پیما تصور کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب میں نے اپنے اس سفر کو پاکستانی خواتین کے نام کرنے کا فیصلہ کیا تو میرے لیے خود کو مضبوط کرنا بھی بہت ضروری تھا تاکہ کسی جگہ پر بھی ایسا تاثر نہ جائے کہ میں اس کام کے لیے کمزور ہوں۔

اپنے اس کارنامے کے لیے ٹریننگ پر بات کرتے ہوئے عظمیٰ نے بتایا کہ وہ پہلے بھی 6 ہزار میٹر کی ایک چوٹی سر کرچکی ہیں اور اسی دوران انھوں نے مختلف مراحل کو سر کرنے کی ٹریننگ حاصل کی۔

انھوں نے کہا کہ کوپیمائی کا موسم سے کافی گہرا تعلق ہے کیونکہ اگر موسم ٹھیک نہیں تو آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

'خاندان کی سپورٹ کے بغیر کچھ ممکن نہ تھا'

انھوں نے اپنی اس کامیابی کی اصل وجہ اپنے خاندان کی سپورٹ کو قرار دیا اور کہا کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ کام بہت مشکل تھا۔

عظمیٰ یوسف نے بتایا کہ خود ان کے شوہر نے اس سفر کے لیے بہت سپورٹ کی اور راستے میں بھی سیٹلائٹ فون کے ذریعے وہ موسم کی معلومات فراہم کرتے رہے جو کہ بہت مدد گار ثابت ہوئیں۔

عظمیٰ نے بتایا کہ 'میرے بچے بھی میری حوصلہ افزائی کرتے تھے اور یہی کہتے تھے کہ میں یہ سفر مکمل کرکے واپس آؤں'

انھوں نے کہا کہ اس کام کے لیے فیملی کی سپورٹ بہت ضروری ہے، کیونکہ خاندان کی اجازت کے بغیر ایک خاتون کا اس طرح دور دراز علاقے میں جانا ناممکن سی بات ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کوہ پیما ہونے کے ساتھ زندگی کا خطرہ تو ایک عام سی بات ہے، کیونکہ اس پیشے میں آنے پر آپ کو خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تاہم سفر کے دوران حفاظتی اقدامات کرنا بھی بہت ضروری ہے، کیونکہ جس علاقے میں، میں گئی تھی وہاں موسم بدلتے وقت نہیں لگتا۔

عظمیٰ یوسف نے کہا کہ 'پاکستانی خواتین کے لیے میرا یہی پیغام ہے کہ آپ کو اپنے اندر سے ڈر اور خوف کو نکال دینا چاہیے تاکہ وہ بھی اس طرح ملک کا نام روش کرسکیں اور دنیا کو معلوم ہو کہ پاکستانی خواتین بہت بہادر ہیں'۔

'پاکستان کی تمام چوٹیوں کو سر کرنا چاہتی ہوں'

اپنے مستقبل کے مشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے عظمیٰ یوسف نے بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کی تمام چوٹیاں سر کریں تاکہ ملک کا نام روشن ہوسکے۔

انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے پہلی بار 6 ہزار میٹر کی بلندی پر جاکر کامیابی حاصل کی تو اسی سے یہ کارنامہ سرانجام دینے کے لیے حوصلہ افزائی ہوئی، لہذا اب وہ 8 ہزار میٹر تک کی بلندی پر جانے کا بھی ارادہ رکھتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں