25 سالہ آسٹریلوی کرکٹر فلپ ہیوز نومبر 2014 میں سڈنی میں کھیلے جانے والے ایک فرسٹ کلاس میچ کے دوران سر پر گیند لگنے سے زخمی ہو گئے، جس کے بعد انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں ان کی دو دن بعد موت واقع ہو گئی۔

شیفیلڈ شیلڈ کے ایک میچ کے دوران انہیں نیو ساؤتھ ویلز کے بولر شان ایبٹ کا باؤنسر لگا تھا جس کے نتیجے میں وہ پچ پر گر پڑے تھے۔ فلپ کی موت کو کرکٹ کے تاریخ کا سب سے بڑا المیہ قرار دیا گیا تھا۔

لیکن کیا پتہ تھا کہ ایسا ہی ایک حادثہ وطن عزیز کی سرزمین پر بھی پیش آئے گا۔


صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع مردان کی تحصیل کاٹلنگ کا نام دنیا کی نظروں میں اس وقت آیا جب پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی 2017 کے فائنل میں بھارت کو شکست دی اور اوپنگ بلے باز فخر زمان فائنل کے ہیرو قرار پائے۔

ملکی اور غیر ملکی میڈیا فخر زمان کا گھر تلاش کرتا کرتا ضلع مردان کی تحصیل کاٹلنگ جا پہنچا، اس تاریخی دن میں بھی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے پہلی بار کاٹلنگ آیا تھا۔

پاکستان کی فتح کے جشن کا جو منظر میں نے اس پسماندہ علاقے میں دیکھا اسے الفاظ میں بیان کر پانا ممکن نہیں۔ وہ جوش و خروش صرف پاکستان کی بھارت کے سے جیت کا نہیں تھا بلکہ کاٹلنگ کے لوگ اس لیے بھی باقی پاکستانیوں سے زیادہ خوش تھے کہ سنچری بنا کر اس عظیم فتح کا مرکزی کردار ادا کرنے والے فخر زمان کا تعلق ان کے علاقے سے تھا۔ جس نوجوان سے بات کروں تو ایک ہی جواب ملتا، "ہمیں بھی فخر زمان بننا ہے، کرکٹ کھیلنی ہے، بھارت کو ہرانا اور پاکستان کو جیتانا ہے۔"

چند دن بعد فاتح ٹیم کی وطن لوٹی، اور جب فخر زمان کا آبائی علاقے میں پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا، جس کی کوریج کے لیے ایک بار پھر کاٹلنگ رخ کرنا پڑا۔ قرب و جوار کے تمام علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ اپنے ہیرو کا استقبال کرنے فخر زمان کے آبائی گاﺅں 'انذر گئی' آئے ہوئے تھے۔ جن میں غالب تعداد نوجوانوں کی تھی۔ انہی نوجوانوں میں ایک فرسٹ ایئر کا طالب علم 18 سالہ زبیر احمد بھی تھا۔ فخر زمان کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے کرکٹ زبیر کے رگوں میں خون بن کر دوڑتا صاف دیکھائی دے رہا تھا۔

14 اگست کی دوپہر فخر زمان کے کوچ بخت مہمند کا فون آیا کہ "آپ کو ایک ویڈیو ’واٹس اپ‘ کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اسٹار کرکٹر نے یوم آزادی کس طرح منائی، ذرا وہ تو اپنے چینل پر چلا دیں۔"

"جی ٹھیک ہے،" کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔

شام کو پھر فون کی گھنٹی بجی تو دیکھا بخت مہمند کی ہی کال تھی شاکر بھائی وہ فخر زمان کی جشن آزادی والی ویڈیو نہیں چلانی۔" آواز میں ایک کرب تھا۔

میں نے پوچھا "کیوں کوچ، کیا ہوا؟" کہنے لگے کہ "ایک حادثہ ہو گیا، کاٹلنگ میں ایک کرکٹر فوت ہو گیا ہے، ہم سوگ میں ہیں اس لے اچھا نہیں لگتا کہ ہمارے جشن کی ویڈیو ٹی وی پر چلے!"

میں نے جواب دیا، "جی ٹھیک ہے کوچ، خدا حافظ۔"

میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس کرکٹر کی موت کا بخت مہند نے ذکر کیا وہ کوئی اور نہیں زبیر احمد تھا۔ یہ انکشاف اس وقت ہوا جب کاٹلنگ کے ایک متحرک نوجوان واصف علی سے بات ہوئی۔ نوجوان نے بتایا کہ "ایک مقامی اکیڈمی میں نیٹ پریکٹس کے دوران بال سر پر لگنے سے زبیر کی موت واقع ہو گئی۔" میں نے فورا پوچھا، "کیا زبیر نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا؟" جواب ملا، "ہاں۔"

پڑھیے: سر پر گیند لگنے سے پاکستانی کلب کرکٹر ہلاک

حادثے کی تفصیلات جاننے کے لیے فخر زمان کے کوچ بخت مہمند کو فون کیا، معلومات ملی کہ سوگواران میں زبیر احمد نے اپنے والدین 3 بہنیں اور 2 بھائی چھوڑے ہیں۔

زبیر کاوالد 50 سالہ محمود شاہ کا گزر بسر کا واحد ذریعہ کھیتی باڑی ہے۔ فخر زمان کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے شدید معاشی مسائل کے باوجود بھی محمود شاہ نے اپنے بیٹے کے شوق کو بھرپور سپورٹ کیا، زبیر کی کرکٹ ضروریات پوری کیں، علاقے کی بہترین کرکٹ اکیڈمی میں داخل کروا کر بوڑھے باپ نے اپنے روشن مستقبل کی امیدیں اپنے کرکٹر بیٹے سے وابستہ کر لیں۔ لیکن 14 اگست 2017 کو محمود شاہ نے نہ صرف اپنے خواب کھوئے بلکہ اپنا بیٹا بھی کھو دیا۔

بخت مہند بتاتے ہیں یوم آزادی کی مناسبت سے 14 اگست کو اکیڈمی میں چھٹی تھی لیکن زبیر احمد اپنے چند دیگر ساتھیوں کو لے کر اکیڈمی پہنچا اور چھٹی کے باوجود نیٹ میں پریکٹس شروع کر دی۔

زبیر کے کزن بلال نے بتایا کہ "وہ 35 بالز کھیل چکا تھا اور وہ آج زیادہ پرجوش اور پراعتماد لگ رہا تھا۔ آج چھٹی کی وجہ سے باقی لڑکے نہیں آئے تھے اس لیے ہم خوش تھے کہ آج کھیلنے کا زیادہ موقع ملے گا، سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک وہ منحوس گھڑی آن پہنچی، ایک باﺅنسر کو ہُک کرتے ہوئے بال اس کے کان کے پیچھے ہیلمنٹ سے نیچے گردن پر لگی اور وہ گر گیا۔

"جب تک ہم اس کے پاس پہنچتے وہ خود ہی اٹھ کے بیٹھ گیا، پوچھنے پر بولا کہ میں ٹھیک ہوں اور دوبارہ وکٹ پر کھڑا ہو گیا اور باﺅلر کے بال کرنے کا اشارہ کیا۔ شاید اس کی زندگی کی ایک آخری گیند باقی تھی" بلال نے ایک لمبی آہ بھری۔

یہ بال اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ کھیلی لیکن اگلے ہی لمحے وہ اچانک وکٹ پر گر گیا، وہ بے ہوش ہو چکا تھا، زبیر کو ہسپتال پہنچایا لیکن وہ تو کرکٹ وکٹ پر ہی جان دے چکا تھا۔"

زبیر احمد ایک کامیاب کرکٹر بننے کی کوشش میں کرکٹ کٹ پہنے، کرکٹ پچ پر ہی جان دے گیا۔

زبیر کی موت پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

آسٹریلوی فلپ ہیوز اور پاکستانی زبیر احمد کی موت کے اسباب ایک ہی ہیں۔

آسٹریلوی کرکٹر فلپ ہیوز کی موت کے بعد کرکٹ آسٹریلیا نے جامع تحقیقات کروائیں۔ تحقیقات سے یہ نیتجہ اخذ ہوا کہ فلپ کی موت شارٹ پچ گیند کی وجہ سے نہیں ہوئی اور تفتیش کاروں کے مطابق بولر شین ایبٹ کی جانب سے کروائی جانے والی گیند میں 'بدنیتی کے عزائم' شامل نہیں تھے۔ اس دن فلپ کو 23 شارٹ پچ گیندیں کروائی گئیں جسے انہوں نے باآسانی کھیلا۔

تحقیقات کرنے والے مائیکل بارنس نے کرکٹ کو محفوظ بنانے کے لیے سفارشات دی تھیں، جس میں سے اہم نکتہ کرکٹ ہیلمٹ کو از سر نو ڈیزائین کرنا تھا۔

کرکٹ آسٹریلیا نے تمام سفارشات پر جلد سے جلد عمل در آمد کرنے اعلان کیا۔ کرکٹ آسٹریلیا کے اس عمل سے لگتا ہے کہ وہ مستقبل میں اس قسم کے حادثے سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن زبیر احمد کی کرکٹ کھیلتے ہوئے موت کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کا طرز عمل انتہائی افسوس ناک ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی تمام تر کاروائی ایک ٹوئیٹ تک محدود رہی۔

زبیر کے انتقال کی خبر پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ زبیر احمد کی المناک موت ایک اور یاد دہانی ہے کہ سیفٹی کا خیال رکھا جائے جیسا کہ ہمیشہ ہیلمنٹ پہن کر کھیلنا چاہیے۔

خدارا پی سی بی کو کوئی یہ بتائے کہ زبیر احمد نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Atif Aug 17, 2017 05:16pm
Very sad & Unfortunate, Allah Zubair ki maghferat karay Ameen What a courage this boy had that even after getting hit on head he continued to bat.
Rana Farhan Aug 17, 2017 07:01pm
Very sad incident.
Neelofer km Aug 17, 2017 09:45pm
RIP!