پونے 4 کروڑ پاکستانی ذیابیطس کا شکار

اپ ڈیٹ 22 اگست 2017
ذیابیطس کا ٹیسٹ —فائل فوٹو
ذیابیطس کا ٹیسٹ —فائل فوٹو

ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان کی 20 کروڑ کی آبادی سے پونے 4 کروڑ لوگ ذیابیطس کا شکار ہیں، یعنی تقریبا ہر چوتھا پاکستانی اس مرض میں مبتلا ہے۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا سروے ہے، جس میں اتنے بڑے پیمانے پر ملک میں ذیابیطس کے مریضوں انکشاف ہوا ہے، اس سے قبل اسی طرز کا سروے 20 سال قبل یعنی گزشتہ صدی میں ہوا تھا۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) وفاقی وزارت صحت، پاکستان ہیلتھ رسرچ کونسل (پی ایچ آر سی) بقائی انسٹی ٹیوٹ آف ڈئیبٹالوجی اینڈ اِینڈو کرائینولوجی (بائڈ) اور ڈائبیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے قومی سروے 2016-2017 کے مطابق ملک کی 26 فیصد آبادی ذیابیطس میں مبتلا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ذیابیطس کی علامات اور بچاؤ کی تدابیر

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق ذیابیطس سے متعلق قومی سروے کی یہ تفصیلات ایک کانفرنس کے دوران بتائی گئیں، جس میں بتایا گیا کہ ملک میں 20 سال سے زائد عمر کے ساڑھے تین سے پونے 4 کروڑ افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔

رپورٹ کے مطابق قومی سروے میں ماہرین پر مشتمل 17 ٹیموں نے حصہ لیا، جنہوں نے مک کے چاروں صوبوں کے دیہی و شہری علاقوں سمیت وفاقی دارالحکومت میں بھی سروے کیا۔

گزشتہ برس سے شروع کیے گئے سروے میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے وضع کردہ اصولوں کے تحت تقریبا ساڑھے 11 ہزار افراد کے ٹیسٹ کیے گئے، جن میں سے 7.14 فیصد لوگ ایسے تھے، جنہیں خود یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ ذیابیطس کا شکار ہیں، انہیں پہلی بار پتہ چلا کہ وہ خطرناک بیمار میں مبتلا ہوچکے ہیں، جب کہ 19 فیصد لوگ پہلے ہی جانتے تھے کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں۔

مزید پڑھیں: ذیابیطس کی 10 خاموش علامات

سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مزید 14 فیصد پاکستانیوں کو عنقریب ذیابیطس ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔

رپورٹ کے مطابق قومی سروے کے دوسرے مرحلے میں ذیابیطس بڑھنے اور لوگوں میں اس کے شکار ہونے کے اسباب کا پتہ لگایا جائے گا۔

تاہم رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جن پونے 4 کروڑ افراد کو ذیابیطس ہے، اس میں سے کتنے ایسے افراد ہیں، جنہیں خطرناک حد تک ذیابیطس ہے، اور کتنے ایسے لوگ ہیں، جن کا مرض ابتدائی یا درمیانے مرحلے میں ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ذیابیطس میں سب سے زیادہ خواتین مبتلا ہیں یا مرد، اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ کس صوبے یا شہر کے لوگ اس مرض کا ذیادہ شکار ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں