سابق وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے میڈیا کو ان کے حوالے سے کوئی بات کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی اور پارٹی لیڈر شپ مشکل میں ہے اس لیے یہ وقت وزارت سے علیحدگی کی وجوہات بتانے کے لیے مناسب نہیں ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیراداخلہ کا کہنا تھا کہ 'میں نواز شریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا مشکور ہوں کہ انھوں نے آخری وقت تک وزارت کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن میں رائے مختلف تھی تو کیا اختلاف رائے پر خود الگ کرنا اچھا فیصلہ نہیں'.

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ 'اس وقت پارٹی مشکل میں ہے اور پارٹی لیڈر شپ مشکل وقت میں ہے اس لیے یہ اپنی اختلافات کی وجوہات بتانے کے لیے یہ وقت مناسب نہیں ہے'.

ان کا کہنا تھا کہ'میں نے وزارت سے استعفیٰ دیا حالانکہ یہاں کوئی کونسلرکی سیٹ نہیں چھوڑتا لیکن میں نے وزارت چھوڑی.

سابق وفاقی وزیر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'میری ساری زندگی ایک جماعت میں گزری ہے اور یہ تاثر دینا کہ کسی عہدے کی وجہ سے الگ ہوا تو یہ میرے لیے تضحیک آمیز ہے، پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ کسی عہدے کا امیدوار نہیں ہوں اسی لیے وزارت سے معذرت کی۔

چوہدری نثار نے کہا کہ پارٹی میں بعض معاملات پر اختلاف رائے موجود ہے جس کا اجلاس میں ہی کھل کر اظہار کرتا ہوں جب کہ کابینہ اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں میں بھی بات کی اور اجلاس میں ہونے والی باتیں لیک کی گئیں اور باتیں لیک کرنے والے بددیانت ہیں۔

وزارت داخلہ کی 4 سالہ کارکردگی

میڈیا سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 24 روز بعد میڈیا کے سامنے آیا ہوں اور آج کی پریس کانفرنس کا مقصد کابینہ میں عدم شمولیت کی وجہ بتانا ہے اور وزارت داخلہ کا سوا چار سال کی کارکردگی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

چوہدری نثار نے کہا کہ 'میں نے اپنی جو کارکردگی دکھائی ہے اس کو سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہیے اور اس کے حوالے سے میں نے میڈیا پر بات نہیں کی اس لیے میرا فرض ہے کہ اس دوران اس وزارت میں جو ہوا ریکارڈ کے لیے آپ کے سامنے رکھا جائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بہت سے ذی شعور لوگوں کی جانب سے وزارت داخلہ کی آئینی اور قانونی حیثیت جانے بغیر اس پر تنقید کی گئی'۔

یہ بھی پڑھیں:کابینہ میں شامل وزیر کے بیان پر چوہدری نثار سیخ پا

انھوں نے کہا کہ کوئٹہ انکوائری کے حوالے سے رپورٹ آئی تو میں نے ایک نوٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی اور اسی طرح 40 صفحات کی ایک مختصر نوٹ تیار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'شروع میں ایک مسلح شخص آیا تو اس کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈالی گئی جبکہ لااینڈ آرڈر کی ذمہ داری صوبوں کی ہے لیکن جو اچھے کام ہوئے اس کی ذمہ داری لینے کے لیے بہت سے لوگ سامنے آئے اور جہاں خامی نظر آئی اس کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی لیکن میں خاموش رہا'۔

سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ 'میں یہ نہیں کہتا کہ 4برس میں سارے کام ہوگئے بلکہ اندرونی سیکیورٹی کے معاملے پربہت کام ہوناباقی ہے'۔

انھوں نے کہا کہ تنقید میٹنگ اور اجلاس میں ہونی چاہیے اور عوام کے سامنے نہیں ہونی چاہیے اسی لیے بلاجواز ہونے والی تنقید کا کبھی جواب نہیں دیا۔

سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ آج بھی میں اپنی کامیابیوں کا کریڈیٹ اکیلے نہیں لینا چاہتا کیونکہ اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل تھی۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی واقعہ ہوا وزارت داخلہ پر ذمہ داری ڈالی گئی، درگاہ لعل شہبازقلندردھماکے کے بعدایک پارٹی کی تنقید کا جواب دیا۔

انھوں نے کہا کہ جون 2013 میں روزانہ 5، 6 دھماکے ہوتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ آج کم دھماکے ہوئے، اتنے برے حالات تھے۔

دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات پرتمام ادارے ایک پیج پرتھے تاہم پیپلزپارٹی، اے این پی اورایم کیوایم عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے حامی نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی ائیرپورٹ پرحملے کے بعددہشت گردوں کے خلاف آپریشن کافیصلہ کیاگیا لیکن پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اورجے یوآئی آپریشن کی مخالف تھی تاہم قومی مفادمیں تینوں پارٹیوں نے آپریشن کی مخالفت نہیں کی۔

انھوں نے کہا کہ آج پاکستان میں دہشت گردوں کاکوئی نیٹ ورک نہیں، پاکستان ان چندممالک میں ہے جہاں دہشت گردی میں کمی آئی اور ابھی دہشت گردوں کیخلاف جنگ آخری مراحل میں ہے اس لیے صبراورثابت قدمی سے دہشت گردوں کامقابلہ کرناہوگا۔

سابق وزیرداخلہ نے کراچی آپریشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 5ستمبرکوکراچی میں وفاقی کابینہ کااجلاس ہوا، چوہدری نثار 27اگست کوکراچی آپریشن کااعلان کیا اور آج کراچی کسی ایک شخص کے پاگل پن پر یرغمال نہیں ہوتا۔

انھوں نے وزارت داخلہ کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے کہا کہ چار برسوں میں 10 کروڑ سمز منسوخ کی گئیں، 2 لاکھ ممنوعہ بور کے لائسنس منسوخ کئے گئے، 10ہزار سے زائد لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکالے، 2000 سے زائد سفارتی پاسپورٹ منسوخ کئے، 32 ہزارجعلی پاسپورٹ اور ہزاروں جعلی شناختی کارڈ منسوخ کئے گئے۔

ڈان خبر معاملے کی تفتیشی رپورٹ عام ہونی چاہیے

ڈان کی خبر کے معاملے پر پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں اس رپورٹ کو عام ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کو عام کرنا حکومت کا کام ہے کیونکہ یہ وزارت داخلہ کے تحت نہیں ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ گزشتہ پریس کانفرنس میں سیاست سےعلیحدگی کی بات نہیں کی تھی شاید میں اپنے نقطہ نظر کو سمجھانے میں قاصر رہا تھا.

یاد رہے کہ سابق وفاقی وزیرداخلہ نے 27 جولائی کو اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس میں انھوں نے پاناما لیکس عم لدرآمد کیس کا کوئی بھی فیصلہ آنے پر وزارت اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا تھا۔

مزید پڑھیں:پاناما کیس:’فیصلہ آنے پر وزارت، اسمبلی سے استعفیٰ دے دوں گا‘

خیال رہے کہ چوہدری نثار کی جانب سے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ اس سے سابق وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے نجی ٹی وی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'وزارت داخلہ ہوتے ہوئے ہمارے خلاف فیصلے بھی ہوئے، وزارت داخلہ ہوتے ہوئے جے آئی ٹی بھی بنی اور وٹس ایپ بھی ہوئے ہیں'۔

سابق وزیراعظم نوازشریف نے ڈان خبر کے معاملے پر کوتاہی برتنے پر پرویز رشید سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا قلم دان واپس لے لیا تھا۔

وزارت سے استعفے پر بات کرتے ہوئے پرویز رشید نے کہا کہ 'یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہےمیں ایک سیاسی کارکن ہوں اور سیاسی کارکن کے طور پر پہلے بھی کردار ادا کرتا تھا اب بھی کرتا جارہاہوں، بہت سے سچ اپنے وقت پر ثابت ہوتے ہیں اور جمہوریت ابھی ناتواں ہے اور لڑکھڑاتی ہے، دھکے کھا جاتی ہے اس کو بچانے کے لیے اگرمیری ذات کی قربانی دینی پڑتی ہے تو میں نے خوشی سے اس قبول کیا'۔

تبصرے (0) بند ہیں