یہ ایک ایسا موقع ہے کہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے لیے نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ امریکی امداد لینے کے باوجود وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے بلکہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو سخت وارننگ بھی دی گئی ہے۔

ایسے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا امریکی سفیر سے ملاقات میں یہ مؤقف کہ پاکستان کو امریکا کی کسی مالی یا عسکری امداد کی ضرورت نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار اور اعتماد کو تسلیم کیے جانے کی ضرورت ہے، خاصی دلچسپی سے دیکھا اور پڑھا گیا۔

پاک امریکا تعلقات میں سرد مہری کے اس ماحول میں روس کے پاکستان کے دفاع میں بولنے کی خبروں کو بھی پاکستانی میڈیا میں اچھی خاصی جگہ ملی۔

پڑھیے: کیا پاکستان ٹرمپ گردی کی زد میں ہے؟

اس تںاظر میں کہ چین اور روس نے دسمبر 2016 میں پاکستان کے ساتھ افغان مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات شروع کیے تھے، روسی صدر کے نمائندہ برائے افغانستان ضمیر کابولوف کا یہ بیان کہ پاکستان خطے میں اہم ملک ہے جس کے بغیر کوئی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا نتیجہ افغانستان کو بھگتنا پڑے گا، ماہر سفارت کاروں کے نزیک خاصی اہمیت کا حامل ہے۔

جنوبی ایشیاء کے لیے نئی امریکی پالیسی کے اعلان اور اس پر پاکستان کے رد عمل کے بعد پاک امریکا تعلقات ایک بار پھر ”بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں” کی تصویر بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اپنے آغاز سے آج تک، گزشتہ 67 برسوں میں پاک امریکا تعلقات ہمیشہ سے ہی نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ شاید اسی لیے ایک طبقہ پھر سے وہی آواز بلند کر رہا ہے جس کی بازگشت ہم ماضی میں بھی کئی بار سن چکے ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے دیرپا دوستی کے لیے روس کے بجائے امریکا کا انتخاب کیوں کیا؟

آج سے کچھ 68 برس پہلے 8 جون 1949 کو پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ حکومتِ روس نے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کو روس کے دورے پر آنے کی دعوت دی ہے۔ وزیرِ اعظم نے یہ دعوت قبول کرلی ہے تاہم ابھی یہ طے نہیں پایا کہ وزیرِ اعظم روس کے دورے پر کب تشریف لے جائیں گے۔

مشہور لکھاری وینکٹ رامانی اپنی کتاب "پاکستان میں امریکا کا کردار” میں لکھتے ہیں:

"2 جون 1949 کو تہران میں سوویت ناظم الامور نے پاکستانی سفیر راجہ غضنفر علی خان کو لیاقت علی خان کے دورہ ماسکو کی سرکاری دعوت زبانی طور پر دی۔ دعوت دینے کا انداز قدرے غیر معمولی اور عجیب و غریب تھا۔ اس سے دو ہفتے پہلے جب پاکستانی وزیراعظم ایران کے دورے پر تھے، ایک سوویت سفارتکار نے بیگم لیاقت علی خان سے پوچھا کہ آیا وہ اور ان کے شوہر سوویت یونین کا دورہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بیگم صاحبہ کا جواب اثبات میں تھا۔ جب یہ دعوت موصول ہوئی، تو قدرے غیر معمولی انداز میں ہی سہی، وزیر اعظم لیاقت علی خان نے فورا اسے قبول کرلیا۔"

پڑھیے: لیاقت علی خان پر الزامات کی حقیقت

بعد ازاں ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان انتظار نہیں کر سکتا، جہاں بھی دوست ملیں، انہیں قبول کرلینا چاہیے۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے امریکی سفارت خانے کے ایک افسر سے کہا کہ ٹرومین نے تو ہمیں واشنگٹن کی دعوت دینے کے قابل نہیں سمجھا، لیکن اسٹالن نے ہمیں ماسکو بلوا لیا ہے۔

بقول وینکٹ رامانی، ایک دلچسب اتفاق ہوا کہ جس دن سوویت یونین کے ناظم الامور نے ایران میں پاکستانی سفیر کو وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہ روس کی دعوت دی اس کے اگلے ہی دن یعنی 3 جون 1949 کو امریکی محکمہ خارجہ نے 75 ایم ایم گولہ بارود کے دو لاکھ راؤنڈ پاکستان کو منتقل کرنے کی درخواست منظور کر لی تھی۔

وینکٹ رامانی نے لکھا ہے کہ پاکستان کو اس فیصلے کی اطلاع دینے کے بعد واشنگٹن یہ اعتماد کر سکتا تھا کہ پاکستان کے حکمران ہاتھ آئے ہوئے مال اور محض توقعات کے درمیان فرق کو محسوس کر سکتے ہیں۔ پھر ہوا بھی یہی، چند ہی ماہ بعد اسٹالن کی دعوت اور لیاقت علی خان کی رضامندی دھری کی دھری رہ گئی اور وزیرِ اعظم لیاقت علی خان اور ان کی بیگم روس کے بجائے امریکا کی دعوت پر واشنگٹن پہنچ گئے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے دستاویزی ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2 جون 1949ء کو ایران میں تعینات سوویت سفیر، پاکستانی سفیر راجہ غضنفر علی خان سے ملنے آیا۔ ملاقات میں وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورہ سوویت یونین کی زبانی دعوت دی گئی۔ راجہ صاحب نے فوراً پیغام کراچی بھجوا دیا جو اس وقت وفاقی دارالحکومت تھا۔ ایک ہفتے بعد سوویت دعوت قبول کر لی گئی۔

اس وقت عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت ہونے کے ناطے وطن عزیز عالمی سطح پر خاصی اہمیت رکھتا تھا۔ اسی لیے پاکستانی وزیرِ اعظم نے سوویت دعوت قبول کی تو واشنگٹن، لندن اور مغربی یورپ میں ہلچل مچ گئی۔ امریکیوں کو یہ خوف لاحق ہو گیا کہ پاکستان سوویت بلاک کا حصّہ بن سکتا ہے۔ روسی حکومت نے دورے کی تاریخ 15 اگست رکھی۔ تاہم انہیں بتایا گیا کہ پاکستان میں یومِ آزادی کی تقریبات کے باعث وزیرِ اعظم کا آنا مشکل ہے مگر وہ 17 اگست کو ماسکو پہنچ سکتے ہیں۔

پڑھیے: 'امریکا سے تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں'

سوویت حکومت نے جواب دینے میں دیر لگا دی اور 28 جولائی کو یہ جواب دیا کہ دورہ نومبر کے اوائل تک ملتوی کر دیا جائے کیونکہ روس میں ماہ اگست چھٹیوں کا مہینہ ہوتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے تجویز منظور کر لی۔

14 اگست کو سوویت حکومت نے ایک اور فرمائش کر ڈالی۔ ایران میں سوویت سفیر نے راجہ صاحب کو بتایا "ہماری حکومت چاہتی ہے کہ جب دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں، تبھی وزیراعظم پاکستان سوویت یونین کا دورہ کریں۔”

روسیوں کو بتایا گیا کہ پاکستان پہلے ہی موزوں امیدوار کی تلاش میں ہے۔ کچھ عرصے بعد شعیب قریشی (جو بعد ازاں وفاقی وزیر خزانہ بھی رہے) سوویت یونین میں پہلے پاکستانی سفیر مقرر ہوئے۔

دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کے ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ سوویت حکومت رفتہ رفتہ، پاکستانی وزیراعظم کے مجوزہ دورہ روس میں کم دلچسپی لینے لگی۔ اس نے نہ صرف بحیثیت سفیر شعیب قریشی کو قبول کرنے میں خاصی دیر لگائی بلکہ دورے کی تاریخ بھی آگے کرتی رہی۔

اسی دوران پاکستان میں وزیر خزانہ، ملک غلام محمد کی قیادت میں بیوروکریسی کا ایک دھڑا لیاقت علی خان پر زور دینے لگا کہ وہ امریکا کو سوویت یونین پر ترجیح دیں۔ 1949 کی آخری سہ ماہی میں امریکی حکومت نے بھی وزیراعظم پاکستان کو دورے کی دعوت دے ڈالی۔

لیاقت علی خان بعض وجوہات کی بنیاد پر دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک، سوویت یونین کے قریب ہونا چاہتے تھے اسی لیے ان کی ایما پر اپریل 1950 میں راجہ غضنفر علی خان نے سوویت سفیر سے دورے کے متعلق فیصلہ کن ملاقات کی۔ وزیراعظم پاکستان اتنے سنجیدہ تھے کہ انہوں نے اپنے ارکانِ وفد کا انتخاب بھی کر لیا تھا۔

مستقبل کے وزیرخارجہ، کیپٹن یعقوب علی خان بھی اس وفد کا حصہ تھے۔ لیکن سوویت حکومت سے کوئی گرین سگنل نہ ملا۔ جس کے بعد لیاقت علی خان مایوس ہو کر مئی 1950 میں امریکا کے دورے پر چلے گئے جہاں ان کا پُر تپاک اور شاندار استقبال ہوا۔

سوال یہ ہے کہ جوزف اسٹالن کی حکومت، دورے کی خود دعوت دے کر پیچھے کیوں ہٹ گئی؟ حقائق بتاتے ہیں کہ دراصل 7 مئی 1949 کو ہندوستانی وزیراعظم پنڈت نہرو نے دورہ امریکا کی امریکی دعوت قبول کر لی تھی۔ یہ بات سوویت حکومت کو ناگوار گزری جو ہندوستان کو اپنے دائرہِ اثر میں لانا چاہتی تھی۔ چنانچہ سوویت حکومت نے وزیراعظم پاکستان کو دورے کی دعوت دے کر جوابی حملہ کر ڈالا۔

پنڈت نہرو اکتوبر 1949 میں امریکا پہنچے۔ یہ دورہ ناکام رہا، ہندوستان اور امریکا کے مابین ٹھوس معاشی یا عسکری معاہدے انجام نہیں پائے۔ یہ دیکھ کر ہندوستان کا سوویت حکومت کے لیے دل میں ایک بار پھر نرم گوشہ نمودار ہوا۔ ہندوستان چونکہ مقامی سطح پر بہرحال پاکستان سے بڑی قوت تھا اس لیے پاکستانی حکومت کو ٹرخایا جانے لگا۔ یوں پاکستانی وزیراعظم کو بادلِ ناخواستہ دورہ امریکا کی دعوت قبول کرنی پڑی۔

پڑھیے: چین اور پاکستان کی گہری دوستی کی وجہ

امریکی صدر ٹرومین نے پاکستان کے وزیراعظم کو دورہ امریکا کی جو دعوت دی تھی اسے لیاقت علی خان نے 10 دسمبر 1949 کو منظور کرنے کا اعلان کر دیا۔ چند ماہ بعد 3 مئی 1950 کو پاکستانی وزیرِ اعظم، امریکی صدر کے خصوصی طیارے میں، سرکاری دورے پر واشنگٹن ڈی سی پہنچے ان کے ہمراہ محترمہ رعنا لیاقت علی خان بھی تھیں۔

یہ تھے وہ حالات جن میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے روس کے بجائے امریکا کا دورہ کیا۔ غیر جانب داری سے جائزہ لیں تو یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ لیاقت علی خان کوئی معاشی امداد لینے یا پاکستان کو امریکی بلاک میں شامل کرنے امریکا نہیں گئے بلکہ وہ امریکیوں سے برابری کی بنیاد پر تعلق قائم کرنا چاہتے تھے۔

امریکا جاتے ہوئے کراچی کے ہوائی اڈے پر ایک صحافی نے لیاقت علی خان سے سوال پوچھا کہ آیا وہ امریکی صدر ہیری ٹرومین کی پیشکش پر قرضہ لے لیں گے؟

وزیراعظم نے فوراً جواب دیا، "میں ہاتھوں میں کشکول اٹھائے نہیں جا رہا۔"

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے پاکستان کی امریکی امداد میں عدم دلچسپی یقیناً ایک نیا اور مقبول عام بیانیہ ہو سکتا ہے۔ مگر موجودہ حالات میں بھی سوال اب بھی وہی پرانا ہے کہ، "آخر یہ کشکول اٹھایا کس نے تھا؟"

تبصرے (0) بند ہیں