بھارتی عدالت نے ’تاج محل‘ کو ہندو مندر ہونے والے دعوے کو باضابطہ طور پر مسترد کردیا۔

برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کی رپورٹ کے مطابق تاج محل کے ہندو مندر ہونے کے دعوے کو، ہندوؤں کو تاریخی یادگار کے احاطے میں عبادت کی اجازت دینے کی درخواست کی سماعت کے دوران مسترد کیا گیا۔

تاج محل میں، مقبرہ جو شاہ جہان نے اپنی ایک بیوی ممتاز کی آخری آرام گاہ کے طور پر بنایا تھا، صرف مسلمانوں کو عبادت کی اجازت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے درخواست کے جواب میں عدالت میں اپنا موقف پیش کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: تاج محل بھی آلودگی سے دھندلا گیا

چھ وکلا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ آگرا میں سترہویں صدی کی یہ یادگار دراصل ایک مندر تھا جو ہندو دیوتا ’شِوا‘ کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔

دی گارجین کی رپورٹ میں اے ایس آئی کے سپرنٹنڈنگ آرکیولوجسٹ ڈاکٹر بھووَن وِکراما کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’ہمارا تحریری جواب ان دعوؤں کو بناوٹی کہانی قرار دیتا ہے اور ہم عدالت سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ یہ درخواست مسترد کردے، اب یہ جج پر منحصر ہے کہ وہ جو فیصلہ دیں۔‘

رپورٹ کے مطابق بھارتی مصنف پی این اوک نے اپنی کتاب ’تاج محل: ایک حقیقی کہانی‘ میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ یادگار، مسلمانوں کے بھارت میں آنے سے قبل تعمیر ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: تاج محل کے نیچے دفن ہے شیو مندر، شنکر اچاریہ کا دعویٰ

پی این اوک کے دعوے کے بعد یہ خیال متعدد بار منظر عام پر آیا جس کے پس منظر میں کئی بار ہندو انفرادیت پسندانہ افراد، تبدیلی پسند اور شدت پسند ہندو گروپس موجود تھے۔

یہاں تک کہ پی این اوک نے اپنا یہ دعویٰ ثابت کرنے کے لیے 2000 میں بھارتی سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا، جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں