کراچی میں متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کی کوشش میں جامعہ کراچی کے طالب علموں کے ملوث ہونے کی اطلاعات کے بعد شہر کی بڑی یونیورسٹیوں کے منتطمین نے فوری اجلاس طلب کر لیے۔

کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد اجمل خان کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا جس میں جامعہ کے سینڈیکیٹ، اکیڈمک کونسل کے اراکین، تمام شعبہ جات کے ڈینز اور رجسٹرار نے شرکت کی۔

اسی طرح کا ایک اجلاس این ای ڈی یونیورسٹی میں بھی منعقد ہوا جس کی صدارت یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سروش ایچ لودھی نے کی۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں موجود شرکاء نے رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن پر ہونے والے حملے کے ماسٹر مائنڈ کا تعلق کراچی یونیورسٹی سے ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔

اس اجلاس میں شریک ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اجلاس میں موجود تمام شرکاء نے حملہ آور کا تعلق جامعہ کراچی سے ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس حملہ آور کی وجہ سے جامعہ کراچی کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: 'خاتون کو ہراساں' کرنے پر جامعہ کراچی کے پروفیسر گرفتار

جامعات کے اساتذہ نے بھی اس مسئلے کو ایک چیلنجنگ قرار دیا۔

اجلاس میں موجود شرکاء کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

داخلہ کمیٹی کا کردار

اجلاس کے دوران کچھ شرکاء نے تجاویز دیں کہ جامعہ میں داخلے کے وقت طالب علم متعلقہ تھانے سے کلیئرنس فارم کی تصدیق کرا کر اپنی دستاویزات کے ساتھ جمع کرائیں اور اگر کوئی طالب علم یہ دستاویزات جمع نہیں کراتا تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے گی۔

تاہم اس حوالے سے اساتذہ کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے جامعہ میں داخلے لینے والے طالب علموں کی تصدیق کا عمل مناسب نہیں ہو گا۔

جامعہ کراچی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ نئے طالبِ علموں کو اپنے داخلے کے لیے متعلقہ پولیس تھانے سے کلیئرنس سرٹیفکیٹ لینے کی خبریں بے بنیاد ہیں اور نہ ہی جامعہ کی انتظامیہ نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: جامعہ کراچی: طلبہ کے ریکارڈز کی جانچ پڑتال کی تردید

اُدھر کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر شکیل فاروقی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے 37 سال کی سروس کے دوران کبھی بھی طالب علموں میں دہشت گردی کا رجحان نہیں دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ جامعہ کراچی کے اطراف میں بڑھنے والی غیر قانونی کچی آبادیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر شکیل فاروقی کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران جامعہ کراچی کے 2 پروفیسرز کا قتل ہوا جس پر پولیس نے کہا کہ قاتل کو گرفتار کیا جاچکا ہے لیکن بعد ازاں ناکافی شواہد کی بنا پر ان ملزمان کو عدالت نے رہا کر دیا تھا۔

این ای ڈی یونیورسٹی کا سیکیورٹی پلان

ادھر این ای ڈی یونیورسٹی کے اساتذہ ایک علیحدہ اجلاس کے دوران اس بات پر متفق ہوگئے کہ اگر عسکریت پسندی کا خطرہ حل کر لیا جائے تو طالب علموں اور پوری انتظامیہ کے درمیان شرکت کا احساس بے نقاب ہو جائے گا۔

این ای ڈی رجسٹرار پروفیسر غضنفر حسین کا کہنا تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی میں موجود تمام طالبِ علموں کو ہدایت جاری کی ہیں کہ وہ شعبہ جات میں ہونے والی کسی بھی قسم کی مشتبہ سرگرمی کی فوری اطلاع انتظامیہ کو دیں۔

مزید پڑھیں: خواجہ اظہار کے حملہ آور پولیس کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث نکلے

اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے این ای ڈی یونیورسٹی کے رجسٹرار کا کہنا تھا کہ اجلاس میں موجود شرکاء نے رواں ماہ جون میں منظور ہونے والے سیکیورٹی پلان پر تبادلہ خیال کیا۔

اردو یونیورسٹی کا موقف

وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سلیمان ڈی محمد کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یونیورسٹی کے سیکیورٹی افسر سے رابطہ کیا ہے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر انتظامیہ سے مدد حاصل کی گئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے لیکن اس مسئلے کو ریاستی سطح پر اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ طالب علموں کا جو ڈیٹا یونیورسٹی کے پاس موجود ہے وہ نادرا کے پاس بھی موجود ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک استاد پورے دن طالب عملوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کرسکے۔


یہ خبر 6 ستمبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں