لاہور: چوہدری نثار علی خان کی جانب سے نجی ٹیلی ویژن کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو کے بعد برطرف ہونے والے وزیراعظم نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے سیاستدانوں نے اس انٹرویو کے سامنے آنے کے وقت پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ واضح کیا کہ نواز شریف کو ’خوف زدہ‘ نہیں کیا جاسکتا اور وہ ووٹ کے تقدس کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

ڈان سے گفتگو میں چند سینئر لیگی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وہ درست وقت آنے پر اس معاملے پر اپنی تفصیلی رائے کا اظہار کریں گے جبکہ چند نے اپنے خیالات بیان کیے۔

این اے 120 کے ضمنی انتخاب کے حوالے سے مریم نواز کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے بعد اپنے منفرد انداز میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ’عوام کے حقوق کے لیے لڑنے پر کسی کو بھی نواز شریف کو سنگین نتائج کے حوالے سے خبردار نہیں کرنا چاہیے، نواز شریف پاکستانی عوام کے لیے جنگ لڑیں گے اور انہیں خوف زدہ نہیں کیا جاسکتا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نواز شریف کو گھر بھیجنے کے لیے نامناسب جلدبازی کا مظاہرہ کیا گیا اور اب ایسا لگتا ہے کہ انہیں (نیب ریفرنسز) میں سزا سنانے کے لیے جلدی بازی کی جارہی ہے‘۔

واضح رہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں شامل طلال چوہدری کو مریم نواز کا انتخاب قرار دیا جاتا ہے، جبکہ وزیر مملکت پاناما پیپرز کیس فیصلے کے بعد عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں۔

طلال چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ برطرف وزیراعظم طاقت کے بغیر حکومت نہیں چاہتے تھے ’کئی لوگوں نے نواز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ طاقت میں رہیں اور ووٹ کے تقدس کی بات نہ کریں، نواز شریف کے لیے اقتدار کی راہ پر واپس آنا مشکل نہیں لیکن وہ طاقت اور عزت کے بغیر حکمرانی نہیں کرنا چاہتے‘۔

مزید پڑھیں: فوج اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی سے کچھ حاصل نہیں: چوہدری نثار

وزیر مملکت نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ نواز شریف کے ساتھ مصفانہ انداز اپنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘سابق وزیراعظم کو ان سوالات کے جواب ملنے چاہیئیں جو انہوں نے اپنی نااہلی کے خلاف دائر کردہ نظرثانی پٹیشن میں اٹھائے ہیں‘۔

طلال چوہدری کے مطابق ’عمران خان این اے 120 میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا نام استعمال کررہے ہیں اور وہ ججز کو بند گلی میں لے جانا چاہتے ہیں‘۔

ادھر اسپیکر قومی اسمبلی کے چوہدری نثار کے نواز شریف اور مریم نواز کے حوالے سے بیان پر میڈیا نمائندگان کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔

نام طاہر نہ کرنے کی شرط پر ن لیگ کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ چوہدری نثار کے اس انٹرویو کے سامنے آنے کا وقت درست نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’این اے 120 کا الیکشن صرف ایک ہفتے کی دوری پر ہے اور چوہدری نثار کا یہ کہنا ہے کہ مریم نواز کا تقابل بینظیر بھٹو سے نہیں کیا جانا چاہیئے کیونکہ وہ ایک عظیم سیاسی رہنما تھیں، اپنی والدہ کے لیے مہم چلانے والی مریم کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار کے تنقیدی انٹرویو کے بعد نواز شریف اور مریم نواز ان سے خوش نہیں ہوں گے کیونکہ یہ انٹرویو اپوزیشن کو مزید ٹارگٹ کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری نثار اور وزیراعظم میں 'دوریاں'

دوسری جانب چوہدری نثار کے قریبی رہنما کا کہنا تھا کہ سابق وزیر داخلہ نے نواز شریف کے خلاف کچھ نہیں کہا بلکہ انہوں نے ایک ’بہترین تجویز‘ پیش کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چوہدری نثار نے اداروں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کی بات کی ہے۔

خیال رہے کہ ایک نجی ٹیلی ویژن سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ جہاں ملک کے خلاف سازشیں کی جارہی ہوں وہاں فوج اور عدالتوں کے ساتھ بہتر روابط ہی صورتحال کو قابو میں رکھنے کا واحد راستہ ہیں۔

چوہدری نثار کا مزید کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی وزیر اعظم ہاؤس کے امیدوار نہیں تھے، ’پیشکش کے باوجود میں اس عہدے کے لیے مناسب نہیں تھا‘۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانے کے حوالے سے ان سے مشاورت کی گئی تھی۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ وہ نہ پارٹی چھوڑیں گے اور نہ ہی کوئی علیحدہ گروپ بنائیں گے کیونکہ وہ پارٹی کے وفادار ہیں۔

خیال رہے کہ مریم نواز کے سیاسی کرئیر پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ’انہوں نے ابھی تک سیاست میں قدم نہیں رکھا ہے، انہیں پارٹی رہنما کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے‘، ساتھ ہی انہوں نے مریم نواز کے بینظیر بھٹو سے تقابل کو بھی مسترد کیا تھا۔

’اپنا آرمی چیف‘ لانے کے مائنڈ سیٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے پارٹی قیادت کو بتایا تھا کہ اگر آپ میرے بھائی کو بھی آرمی چیف بنادیں تو وہ وقت پڑنے پر کسی شخص کا نہیں بلکہ ادارے کا وفادار ہوگا‘۔


یہ خبر 11 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں