سینیٹرز نے دہشت گردی کے واقعات میں طلبہ کے ملوث ہونے پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کردیا۔

سینیٹ اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان (نیپ) سے متعلق تحریک پیش کرتے ہوئے پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹرفرحت اللہ بابر نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں تعلیم یافتہ لوگ ملوث پائے جا رہے ہیں اس لیے نصاب پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ذہنوں کی ہے مگر فوجی اسلحے کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا گیا اور بیانیے پر توجہ نہیں دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ خواجہ اظہار الحسن پر حملہ آور اعلیٰ تعلیمی یافتہ اور انجنیئر تھے اور دیگر پکڑے جانے والے ملزمان بھی پڑھے لکھے ہیں، صفورا گوٹھ اور ثمین محمود کے قتل میں ملوث افراد بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، مشال خان کے قتل میں ملوث ملزمان بھی پڑھے لکھے تھے۔

مزید پڑھیں:ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے

انھوں نے کہا کہ 'ہم نے نصاب کے ذریعے بچوں کو جہاد سے متعلق خود تعلیم دی ہے'۔

فرحت اللہ بابر نے قومی بیانیہ کے معاملے پر پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم) کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تنظمیں نام بدل کر الیکشن لڑ رہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ نظام کوسیہون شریف، شاہ نورانی پر حملوں کا علم ہے اور کالعدم تنظیمیں کھلے عام کام کررہی ہیں۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ آرٹ اور کلچر کا فروغ ہی دہشت گردی کی روک تھام کا واحد راستہ ہے۔

جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنا بیانیہ دینے کی ضرورت ہے، اب پہلے سے بھی خطرناک صورت حال کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:خواجہ اظہار حملہ: پروفیسر سمیت 2 مبینہ ملزمان بلوچستان سے گرفتار

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے تحریک پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ آمروں کے دور میں بننے والے بیانیے نے ملک کو نہیں ان کے ذاتی مفادات کو فائدہ پہنچایا۔

انھوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے کی بات کرنے والے اصل میں اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں کیونکہ 20 نکات میں سے اکثر نکات کا تعلق صوبوں سے ہے۔

پولیس میں اصلاحات پر زور

سینیٹ اجلاس میں اراکین نے پولیس کی کارکردگی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پولیس کو غیر سیاسی کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کے خلاف عوامی شکایات کے نظام کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق پولیس اختیارات سے متعلق آئینی ترمیم لائی جا رہی ہے، یہ ترمیم آئی تو پولیس کو سیاسی اور 2018 کے الیکشن میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

جمعیت علما اسلام (ف) کے سینیٹر حافظ حمداللہ کا کہنا تھا کہ لوگ ڈاکووں سے نہیں پولیس سے ڈرتے ہیں، جعلی مقابلوں میں لوگوں کو مارا جاتا ہے، فیصلہ اور ڈنڈا طاقت کے آگے فروخت ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بے گناہ لوگوں کو اغوا کار اور چور قرار دیا جاتا ہے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ سب سے پہلے پولیس میں کلین اپ آپریشن کیا جائے پھر دوسرے اداروں میں اس کا آغاز کیا جائے، پولیس میں اصلاحات کی ضرورت ہے آج کل تھانے بکتے ہیں، تبدیلیاں بھی رشوت دے کر ہوتی ہے۔

تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت بلیغ الرحمان نے کہا کہ پولیس بہت اچھی نہیں ہوئی مگر بہتری ضرور آئی ہے پولیس کو کرپٹ تصور کیا جاتا ہے لیکن ہر ایک کرپٹ نہیں ہوتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں