اسلام آباد: قومی اسمبلی میں وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے انتظامی امور اور اکاؤنٹس میں متعدد بے ضابطگیوں سے متعلق آڈٹ رپورٹ پیش کردی گئی۔

گذشتہ ہفتے ایوان زیریں میں پیش کی جانے والی 16-2015 کی خصوصی آڈٹ رپورٹ صدر مملکت ممنون حسین کی ہدایت پر تیار کی گئی تھی جو مذکورہ یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔

رپورٹ میں طلبہ کے ریکارڈز کی تجاویز، جعلی ڈگریوں، مالی بے ضابطگیوں کے معاملات اور غیر ملکی اسکالر شپ کے لیے غیر مستحق اُمیدواروں کے انتخاب کے حوالے سے معاملات شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صدر نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال کے دور سے متعلق معاملات کا خصوصی آڈٹ کرنے کو کہا تھا، بعد ازاں صدر نے ڈاکٹر ظفر اقبال کو ایک انکوائری رپورٹ میں متعدد الزامات لگائے جانے کے بعد ان کے عہدے سے فارغ کر دیا تھا۔

مزید پڑھیں: وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی اور اسلام آباد کی فیسوں میں واضح فرق

وفاقی اردو یونیورسٹی، جس کا ایک کیمپس اسلام آباد میں بھی واقع ہے جہاں 4500 طلبہ زیر تعلیم ہیں، کے حوالے سے آڈیٹرز نے امتحانات کے نتائج میں خرابی کے الزامات بھی عائد کیے۔

آڈیٹرز کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی نے بی کام کے سالانہ امتحانات اگست 2014 میں لیے تھے جس کے لیے 1013 اُمیدواروں نے رجسٹریشن کروائی اور 917 اُمیدوار امتحان میں شریک ہوئے جبکہ 269 اُمیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا۔

یونیورسٹی نے 25 فروری 2015 کو امتحانی نتائج کا اعلان کیا۔

رپورٹ کے مطابق ’نتائج کے اعلان کے فوری بعد، اس میں تبدیلی کرکے مزید 107 اُمیدواروں کو شامل کیا گیا جو یونیورسٹی کے طالب علم نہیں تھے‘۔

مزید کہا گیا کہ 66 اُمیدوار یا تو ناکام تھے اور یا غیر حاضر تاہم ان کے سیٹ نمبر کامیاب ہونے والے نتائج میں یونیورسٹی سے باہر کے اُمیدواروں کے ساتھ شامل تھے، جنہوں نے نہ تو امتحانات میں شرکت کی تھی اور نہ ہی انہوں نے رجسٹریشن کروائی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ان 66 اُمیدواروں کو نہ ہی رجسٹریشن اور امتحانات کی رسیدیں فراہم کی تھیں جنہیں بعد ازاں کامیاب قرار دیا گیا، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ افراد یونیورسٹی میں انرول نہیں تھے اور نہ ہی انہوں ںے امتحانات میں شرکت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اردو یونیورسٹی: کرپشن کیسز تحقیقاتی اداروں کے سپرد

رپورٹ کے مطابق ’41 اُمیدوار یا تو غیر حاضر تھے یا ناکام رہے تھے تاہم انہیں نتائج میں کامیاب قرار دیا گیا‘۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ’ایسا ہی بی کام پارٹ ون کے 2012 کے امتحان میں 43 اُمیدواروں کے ساتھ کیا گیا اور بی اے پارٹ ون کے 2013 کے امتحانات میں بھی 42 اُمیدواروں کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا‘۔

رپورٹ میں مذکورہ معاملے کو تحقیقات کے لیے انویسٹی گیشن ایجنسی کو دینے کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’انتظامیہ نے اپنے جواب میں بتایا کہ ڈاکٹر مسعود مشکور کے بحیثیت کنٹرولر امتحانات کے دور میں جاری ہونے والی جعلی ڈگریوں، جعلی نتائج، بے ضابطگیوں، نتائج میں تبدیلیوں کے معاملے پر کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور اس کی رپورٹ وائس چانسلر کو بھجوائی گئی‘۔

غیر مستحق افراد کا اسکالر شپ کے لیے انتخاب

رپورٹ میں کہا گیا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے 22 فیکلٹی ارکان کو پی ایچ ڈی کی اسکالر شپ دی جس میں سے صرف ایک فرد نے نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کی تھی۔

مزید بتایا گیا کہ ’یونیورسٹی نے این ٹی ایس میں کامیاب ہونے والے دیگر اُمیدواروں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک اُمیدوار کو منتخب کیا جس کے بارے میں کمیٹی نے سفارش کی تھی، جبکہ دیگر 21 اُمیدواروں نے نا تو این ٹی ایس پاس کیا اور نہ ہی کمیٹی کی جانب سے ان کی سفارش کی گئی تھی‘۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ان کو منتخب کرنا ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ایس او پی اور پی سی ون کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: یونیورسٹی اساتذہ پر تشدد،8 طلبہ کا داخلہ منسوخ

آڈٹ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی نے اسلام آباد کیمپس کے قیام کے لیے 2014 میں ایچ ای سی کی جانب سے جاری ہونے والے 8 کروڑ روپے بھی استعمال نہیں کیے، یہ فنڈز 30 جون 2014 سے قبل استعمال نہیں کیے گئے اور سیونگ اکاؤنٹ میں موجود تھے۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں دیگر بے ضابطگیوں کی نشاندہی بھی کی گئی جس میں، غیر قانونی تقرریاں، غیر مجاز پروموشنز، غیر مجاز بینک اکاؤنٹس، لاکھوں روپے کے غیر قانونی اخراجات اور وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت 2 ملازمین کو لیپ ٹاپ کی فراہمی بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ادارے کا داخلی نظام کمزور اور غیر شفاف ہے، غیر قانونی تقرریوں اور ٹریننگ/پی ایچ ڈی کورس کے لیے لوگوں کا انتخاب وائس چانسلر کی جانب سے بے ضابطگیوں کی اعلیٰ مثال ہیں، جبکہ یونیورسٹی کی اپنی سیکیورٹی فورس موجود ہونے کے باوجود سیکیورٹی ایجنٹ کیلئے فنڈز استعمال کیے گئے‘۔


یہ رپورٹ 19 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں