اسلام آباد: حکومت نے مختلف جماعتوں کے تحفظات کے بعد فاٹا کے رسم و رواج کے مکمل تحفظ اور ملک کے قانون کو علاقے میں متعارف کرانے سے متعلق ’قبائلی رواج بل 2017‘ واپس لینے کا فیصلہ کرلیا۔

سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس چیئرمین رضا ربانی کی صدارت میں ہوا، جہاں وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے اجلاس کو بریفنگ دی۔

اجلاس کے دوران وزیر سیفران نے بتایا کہ حکومت رواج بل واپس لینے جا رہی ہے، کیونکہ اس پر مختلف جماعتوں کے تحفظات ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں پاکستان کے قوانین مرحلہ وار لاگو کیے جانے پر غور کیا جارہا ہے اور فاٹا کا 5 سال سے پہلے خیبر پختونخوا میں انضمام کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے 2018 کے الیکشن میں فاٹا کے ممبران کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں لانے کی تجویز تھی، لیکن اب تجویز دی گئی ہے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی میں فاٹا ارکان کو شامل کیا جائے۔

مزید پڑھیں: فاٹا اصلاحات کے نفاذ میں تاخیر پر دھرنے کی دھمکی

وزیر سیفران کا کہنا تھا کہ فاٹا میں امن کی واپسی لازمی ہے، وہاں کے حالات کے باعث ایسے ہی وہاں سے فوج کو نکال دینا ممکن نہیں ہے، لہٰذا فوج کی واپسی مرحلہ وار ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ فاٹا کے تمام تر معاملات اس وقت فوج کے کنٹرول میں ہیں اور پولیٹیکل ایجنٹ بھی فوج کے مشورے کے بغیر کام نہیں کر سکتا۔

دوسری جانب حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے کی مخالفت کردی۔

وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار بڑھانے سے انضمام کا عمل شروع تصور کیا جائے گا جبکہ لوگوں نے فاٹا کو فی الفور خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کی ہے، لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے ہمیں اپنے گھروں میں جانیں دیں پھر فیصلہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ کی ’فاٹا اصلاحات بل‘ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری

عبدالقادر بلوچ نے بتایا کہ فاٹا اصلاحات پر عملدرآمد کرانے کے لیے گریڈ 20 کے چیف آپریٹنگ افسر (سی او او) کی تعیناتی کی منظوری دے دی گئی ہے اور جیسے ہی چیف آپریٹنگ افسر کی تعیناتی ہوتی ہے عملدرآمد کا آغاز کر دیا جائے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ چیف آپریٹنگ افسر گورنر کے ماتحت ہوگا۔

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ شاید آج سی او او کوئی سویلین تعینات ہو، لیکن کل یہاں کسی فوجی کو تعینات کردیا جائے گا، پھر فاٹا کے تمام معاملات راولپنڈی جی ایچ کیو سے چلیں گے اور ترقیاتی کاموں کے تمام ٹھیکے ’ایف ڈبلیو او‘ اور ’این ایل سی‘ کو دے دیئے جائیں گے۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ فوج کے دہشت گردی کے خلاف کردار پر کسی کو کوئی تحفظات نہیں، اگر گورننس، شفافیت اور آئین کی بات آئے تو فوج کا کام بارڈر کا تحفظ کرنا ہے، لیکن ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ یہاں سویلین حکومت میں ملٹری مداخلت رہی ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت چیف آپریٹنگ افسر کے حوالے سے قوانین میں یہ ترمیم کرنے کو تیار ہے کہ اس عہدے پر کسی فوجی افسر کو تعینات نہیں کرے گی؟

مزید پڑھیں: ’2018 سے قبل فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام‘

اس حوالے سے وزیر سیفران نے کہا کہ چیف آپریٹنگ افسر کے عہدے کے لیے کسی فوجی افسر کی تجویز زیر غور نہیں، اجلاس میں سی او او کے عہدے کے لیے آرمی چیف نے ایک سویلین افسر کا نام تجویز کیا تھا۔

ساتھ ہی انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے بغیر ٹینڈر کے ایف ڈبلیو او اور این ایل سی کو نہیں دیئے جائیں گے۔

عبدالقادر بلوچ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ فاٹا اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے کمیٹی قائم کی گئی اور آرمی چیف اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی خواہش پر انہیں کمیٹی میں شامل کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں