لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

انٹرنیٹ کے ذریعے وائرل ٹرینڈز بنانا اور چیلنجز دینا خاصے عام ہوچکے ہیں، جو کہ اکثر و بیشتر تفریح بخش، غیر ضرر رساں ہوتے ہیں اور کبھی کبھار تو آگہی پھیلانے اور اچھے مقصد کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن گزشتہ چند ماہ سے ایک بڑا ہی دہشت ناک چیلنج ابھر کر سامنے آیا ہے، وہی جس کے باعث دنیا کے کئی حصوں میں خودکشی، اقدام خودکشی اور خود کو اذیت پہنچانے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ اِس کا نام ہے بلو وہیل چیلنج ہے، جس کی شروعات بظاہر طور پر روس سے ہوئی، پہلے تو اِس گیم کو محض ایک بے بنیاد انٹرنیٹ دنیا کی ایک تصوراتی کہانی پکار کر نظر انداز کردیا گیا لیکن اب واقعات کی تعداد اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب مزید نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

بلو وہیل ایک آن لائن گیم ہے جس میں گیم کا ایڈمنسٹریٹر (جسے کیوریٹر بھی پکارا جاتا ہے) گیم کھیلنے والے کو 50 روز پر مشتمل چیلنجز اور ٹاسک دیتا ہے۔ گیم کھیلنے والے کو خود کو اذیت پہنچانے کے کاموں کے لیے حوصلہ بڑھایا جاتا ہے، جیسے اپنے بازو پر بلیڈ سے بلو وہیل کی آوٹ لائن بنانا، اور پھر ان کی تصویر کھینج کر ثبوت کے طور پر کیوریٹر کو بھیجنا، جبکہ گیم کھیلنے والے سے نفسیاتی طور پر غیر مستحکم سرگرمیاں کروائی جاتی ہیں، جو کھیلنے والے کو سماجی طور پر اکیلے پن کا شکار بنانے کا باعث بنتی ہیں۔

چند چیلنجز کے مطابق آپ کو ایک پورا دن کسی سے بھی بات کیے بغیر گزارنا ہوتا ہے، اور کچھ کو پورا کرنے کے لیے آپ کو آدھی رات کو اٹھنا ہوتا ہے اور کیوریٹر کی بھیجی گئی ذہنی اذیت پہنچانے والی وڈیوز دیکھنی ہوتی ہیں۔

اس گیم میں حصہ لینے والے ایک فرد نے وڈیو کے بارے میں بتایا کہ ان میں ٹین ایجرز کے چھت سے کودنے، لاشوں کے کلوز اپ وغیرہ کے ساتھ ناگوار موسیقی، جانوروں اور پالتو کتے بلیوں کی چیخ و پکار، اور بچوں کے رونے کی ایسی آوازیں شامل ہوتی ہیں، جیسے ان بچوں پر کوئی تشدد کر رہا ہو۔

ہر کیوریٹر کا ٹاسک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے لیکن آخری ٹاسک ہمیشہ سب کا ایک ہی ہوتا ہے وہ ہے خودکشی۔ بلاشبہ اس گیم کا نام وہیل مچھلیوں کے اس رجحان کو ظاہر کرتا ہے جس کے تحت وہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر خود کو ساحل پر لے آتی ہیں،یعنی خودکشی کر لیتی ہیں۔

رواں سال کی ابتدا میں، امریکا میں دو ٹین ایجرز کی خودکشیوں کو بلو وییل گیم سے جوڑا گیا تھا، جبکہ دیگر ممالک سے بھی اِس قسم کے کیسز کی اطلاعات ہیں۔ حالیہ ماہ کے دوران اس گیم نے ہندوستان کا بھی راستہ دیکھ لیا ہے، جہاں تقریباً ایک درجن کیسز پولیس کے زیرِ تفتیش ہیں اور میڈیا میں رپورٹ ہوئے۔

اس گیم کا بانی فلپ بڈیکن نامی ایک 21 سالہ روسی باشندے کو بتایا جا رہا ہے، جو اس مختلف ٹاسک سے بھرپور گیم کا مقصد صاف لفظوں میں کچھ واضح کرتا ہے کہ اس کا شکار بننے والے افراد دراصل زمین پر بوجھ تھے جنہوں نے اپنی خوشی سے موت کو گلے لگایا، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو خودکشی پر آمادہ کر کے معاشرے کی صفائی کر رہے ہیں۔ بڈیکن اس وقت روس کی ایک جیل میں قید ہیں لیکن ان کی غیر موجودگی میں اس گیم کو چلانے کے لیے نئے کیوریٹرز اور ایڈمنز ابھر آئے ہیں۔

جبکہ ایسے چند شواہد اور افواہوں کے بارے میں سنا جا رہا ہے جن کے مطابق اس گیم نے پاکستان کا بھی راستہ دیکھ لیا ہے، اس حوالے سے حالیہ دنوں میں میڈیا پر بھی رپورٹس دیکھنے کو ملیں۔

پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ماہر نفسیات ڈاکٹر عمران دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس چیلنج کو پورا کرنے کی کوشش میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے والے مردان کے دو نوجوان علاج کے لیے آئے۔

ڈاکٹر خان بتاتے ہیں کہ، وہ نوجوان خوش قسمت تھے کیونکہ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ یہ گیم انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے، اسی لیے انہوں نے خود کو کسی ڈاکٹر کو دکھانے کا فیصلہ کیا۔ اس گیم سے سب سے زیادہ خطرہ جذباتی طور پر کمزور اور سماجی طور پر تنہائی کے شکار افراد کو ہوتا ہے، اور ایسے ہی لوگ اس گیم کا ٹارگٹ ہوتے ہیں۔

ایک روسی تفتیش کار کے مطابق اس گیم کا مقصد زیادہ سے زیادہ بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا، پھر یہ پتہ لگایا گیا کہ ان میں سے کسے سب سے زیادہ نفسیاتی طور پر پھانسا جاسکتا ہے۔ جیسے جیسے چیلنجز اذیت ناک ہوتے چلے جاتے ہیں ویسے ویسے زیادہ تر لوگ گیم ترک کرنے لگتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو اس قسم کی برین واشنگ اور مشق کے جھانسے سے خود کو بچا نہیں پاتے۔

اس سب سے زیادہ چونکا دینے والی چیز تو وہ وضاحت ہے جو بکیڈن اس گیم کے متاثرین کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ وہ تو ’انہیں وہی کچھ دے رہے تھے جو ان کے پاس حقیقی زندگی میں نہیں ہے، جیسے محبت کا احساس، ہم دردی اور تعلقات۔’ بنیادی طور پر، انہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا گیا ہے جسے آن لائن بچوں سے جنسی رغبت رکھنے والے افراد اور دہشتگرد بھرتی کار استعمال کرتے ہیں۔

کئی ممالک میں اس گیم کو بلاک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ایک مسئلہ ہیدا ہوگیا ہے وہ یہ کہ بلو وہیل گیم ڈاؤن لوڈ ایبل یا ویب سائٹ پر دستیاب گیم نہیں بلکہ ایک سے دوسرے فرد تک منتقل ہوتی ہے یا پھر کلوزڈ گروپس میں ممبرشپ کے ذریعے اس گیم تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ گیم اب مختلف ناموں کے ساتھ ابھر کر سامنے آرہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی مانیٹرنگ اور روک تھام کافی مشکل ہوچکی ہے۔

لہٰذا آخری راستہ یہ بچتا ہے کہ والدین اور دیگر بڑے اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور خیال رکھیں کہ کہیں ان کے بچوں میں ایسے آثار تو نظر نہیں آ رہے کہ جو خطرے کا باعث بن سکتے ہیں، جیسے بڑھتا ہوا اکیلا پن اور ان کے رویوں میں منفی تبدیلیاں۔ ہاں ایک بات جو آپ کو عجیب تو ضرور لگے گی لیکن ضروری بھی ہے وہ یہ کہ اس سے پہلے آپ کے بچے کسی بڑے حادثے کی زد میں آئیں، آپ کو اپنے بچے کے ساتھ کھلے اور ایماندارانہ طور پر رابطہ قائم کرنا ہوگا۔ اکثر اوقات تو یہ گیم پہلے سے موجود نفسیاتی مسائل کو متحرک کرنے کا کام کرتا ہے، اور ان پہلے سے موجود مسائل کو سنگین حد تک لے جاتا ہے۔

ایک ہندوستانی شخص کو شک تھا کہ اس کا بھتیجا یہ گیم کھیل رہا ہے (کیونکہ انہوں نے اس بچے کے جسم پر خود کو اذیت پہنچانے کے آثار دیکھے تھے) انہوں نے ماہر نفسیات کو بتایا کہ، "اگر مجھے پتہ ہوتا کہ اس گیم تک کس طرح رسائی حاصل کی جاسکتی ہے تو میں اس گیم کو ضرور حاصل کرتا اور آخر تک کھیلتا۔ لیکن پتہ نہیں اس گیم تک کیسے پہنچا جائے۔"

یہ مضمون ابتدائی طور پر 18 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ترجمہ: ایاز احمد لغاری

تبصرے (0) بند ہیں