'دنیا کو تباہی سے بچانے والا' شخص چل بسا، کہانی آج بھی زندہ

20 ستمبر 2017
استانیزلَو پیترو — فائل فوٹو / اے پی
استانیزلَو پیترو — فائل فوٹو / اے پی

'امریکا اور روس کے درمیان جوہری جنگ روکنے والے' ایک سابق روسی فوجی اہلکار استانیزلَو پیترو، ماسکو کے قریب ایک قصبے میں انتقال کرگئے لیکن کروڑوں انسانوں کو زندگی دینے والے اس ہیرو کی کہانی آج بھی زندہ ہے۔

اس روسی فوجی کی کہانی کو ایک دستاویزی فلم بعنوان ’وہ شخص جس نے دنیا کو بچایا‘ میں بیان کیا گیا جسے کئی بین الاقوامی ایوارڈ ملے اور اقوامِ متحدہ نے بھی اس کو سراہا۔

اتنی بڑی کاوش کے باوجود استانیزلَو پیترو ماسکو کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے میں رہے اور رواں برس مئی میں ایک گم نام علاقے میں انتقال کر گئے۔

ان کی موت کی خبر روسی اور دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں اُس وقت شہ سرخی بنی جب ایک جرمن دوست نے ان کی وفات کے حوالے سے ایک بلاگ لکھا۔

استانیزلَو پیترو ستمبر 1983 میں ماسکو کے جنوب میں واقع روسی فوج کے ایک کمانڈ سینٹر میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے کہ اچانک ایک گھنٹی بجی جس کا اشارہ تھا کہ امریکا نے روس پر بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: 23 ستمبر کو ایک بار پھر 'دنیا تباہ' ہونے کی پیشگوئی

اس افسر نے، جس کے پاس فیصلے کرنے کے لیے محض چند منٹ ہی موجود تھے، اس وارننگ کو جھوٹ سمجھ کر نظر انداز کردیا۔

اگر وہ کمانڈروں کو امریکی ایٹمی حملے کے بارے میں آگاہ کرتے تو انہیں جوابی حملے کے احکامات موصول ہو سکتے تھے، لیکن 44 سالہ اس فوجی افسر نے وارننگ کے نظام میں خرابی کے بارے میں آگاہ کیا جس کی بعد میں تحقیقات کرائی گئیں تو وہ درست ثابت ہوا۔

اس واقعے کو پیترو کے بیٹے ڈمیتری پیترو نے بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد 7 روز بعد گھر واپس آئے لیکن انہوں نے اپنے اہل خانہ کو اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔

چند ماہ بعد پیترو کو اپنی سرزمین کے لیے خدمات پیش کرنے پر ایک ایوارڈ سے نوازا گیا اور اس واقعے کو کئی برس تک روسی فوجی حکام نے منظر عام پر نہیں آنے دیا۔

اس روسی اہلکار نے 1984 میں فوج سے ریٹائرمنٹ لی اور ماسکو سے 20 کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے فریزینو میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔

یہ بھی پڑھیں: ایٹمی دھماکا جھیلنے والا 391 سالہ درخت

پیترو کی یہ کہانی 1991 میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد منظر عام پر آئی جس کے بعد وہ روس اور امریکا سمیت پوری دنیا کے میڈیا میں مشہور ہوگئے۔

پیترو کے بیٹے اپنے والد کی اس شہرت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ان کے والد ایک سادہ آدمی تھے انہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو ایک ہیرو نہیں سمجھا۔

ڈمیتری پیترو نے کہا کہ ان کے والد لا پرواہ انسان نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے اپنے آپ کو ہیرو کہلوانے پر تعجب کا اظہار کیا۔

ڈمیتری نے بتایا کہ ان کے والد ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے صرف اپنا فرض ادا کیا۔

پیترو کے بیٹے نے یہ بھی بتایا کہ ’میرے والد کو یورپینز کی جانب سے سیکٹروں خطوط موصول ہوئے جس میں انہوں نے ایٹمی جنگ سے بچانے میں میرے والد کا شکریہ ادا کیا۔‘

’دی مین ہو سیوڈ دی ورلڈ‘ کے نام سے دستاویزی فلم 2014 میں ریلیز ہوئی تھی جسے ڈنمارک کے ڈائریکٹر پیٹر اینتھونی نے تیار کیا تھا۔

فلم کے ایک ڈائیلاگ میں پیترو کہتے ہیں، ’میں اسے (وارنگ گھنٹی) دوٹوک الفاظ میں مسترد کرتا ہوں جو تیسری عالمی جنگ کی وجہ بن سکتی ہے‘۔

ایک اور ڈائیلاگ میں انہوں نے کہا ’میں نے محسوس کیا کہ مجھے سزائے موت کے لیے لے کر جایا جارہا ہے۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں