ہری پور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں تشدد کے بعد ہلاک ہونے والے طالبعلم مشعال خان قتل کیس میں 5 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے۔

مشعال خان قتل کیس کی سماعت ہری پور سینٹرل جیل میں قائم انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوئی جہاں 18 گواہان کو پیش کیا گیا۔

اس موقع پر 5 گواہان نے اپنا بیان قلمبند کرایا جن کا تعلق پولیس سے تھا۔

بدھ 20 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران مشعال کے والد اقبال خان، دونوں جانب سے وکلاء اور پراسیکیوٹرز بھی موجود تھے۔

گواہان کے بیان ریکارڈ کرنے کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 27 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں: 'مشعال خان کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا'

گذشتہ روز انسداد دہشت گردی عدالت نے مشعال خان کے قتل کیس میں 57 ملزمان پرفرد جرم عائد کی تھی۔

ہری پور سینٹرل جیل کے اندر ہونے والی سماعت کے دوران ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ رواں برس 13 اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام میں شعبہ ابلاغ عامہ کے 23 سالہ طالب علم مشعال خان کو تشدد کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

مشعال خان کے قتل کے الزام میں 57 ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا، جن پر آج فرد جرم عائد کی گئی۔

دوسری جانب قتل کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مشعال خان کا قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مشعال قتل کیس مردان سے ہری پور منتقل کرنے کا حکم

رواں برس 10 جون کو مشعال خان کے والد محمد اقبال خان نے کیس کی مردان سے دوسرے ضلع میں منتقلی کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ مردان یونیورسٹی میں مشعال خان کے ہولناک قتل کے بعد اسی علاقے میں یہ کیس چلانا امن و امان کی صورتحال کو خراب کر سکتا ہے۔

جس کے بعد 27 جولائی کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے مشعال خان قتل کیس مردان سے ہری پور جیل کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) منتقل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں