امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ وہ فلاحی بنیادوں پر بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کی امداد کے لیے 3 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم فراہم کرے گا۔

میانمار کی ریاست رکھائن میں مقیم روہنگیا مسلمانوں پر ریاستی ظلم و ستم کے بعد یہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اب تک کا سب سے بڑا قدم ہے۔

امریکی امدادی رقم روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے خوراک، ادویات، پانی، صحت و صفائی اور خیموں کی صورت میں خرچ کی جائے گی۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت اس وقت اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: 'میانمار، بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا مسلمانوں کو واپس لے'

اقوامِ متحدہ کے سیکیورٹی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب صدر مائیک پینس نے میانمار کی فورسز کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر کیے جانے والے ظلم و بربریت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم تاریخی بے دخلی دیکھ رہے ہیں۔‘

امریکی نائب صدر نے میانمار کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کو بِلا خوف واپس آنے کے بیان کو خوش آئند قرار دیا اور ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ میانمار کی افواج فوری طور پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں بند کریں اور اس مسئلے کے طویل المدتی حل کے لیے سفارتی کوششوں میں مدد فراہم کرے۔

پناہ گزینوں اور نقل مکانی امور کے ماہر ایک اعلیٰ امریکی سفارتکار سائمن ہینشا نے کہا کہ میانمار حکومت کو علاقے میں لوگوں کی حفاظت کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سائمن نے مقامی صحافی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ روہنگیا مسلمانوں پر قاتلانہ حملے، ان کے ماورائے عدالت قتل، ریپ اور گھروں کو جلائے جانے کی اطلاعات پر تشویش ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سرحد پر بارودی سرنگیں نصب کرنے پر میانمار فوج کو تنقید کا سامنا

تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ پناہ گزینوں اور نقل مکانی کے مسائل کے حوالے سے موجود اکاؤنٹ سے یہ امداد فراہم کرے گا جبکہ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی اور اس کے ذیلی اداروں سے بھی رابطے میں رہے گا۔

اُدھر آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ اس شورش زدہ علاقے میں مسلمانوں کی کثر تعداد موجود ہے جبکہ آبادی کے نصف حصے سے بھی کم علاقے خالی کرائے گئے ہیں تاہم اس حوالے سے امریکی دعوؤں پر شکوک و شبہات ہیں۔

سائمن ہینشا کا کہنا ہے کہ امریکا کو اس علاقے میں نقصان کا تخمینہ لگانے کی اجازت نہیں ہے لیکن بنگلہ دیش کی جانب نقل مکانی کرنے والے 4 لاکھ سے زائد مسلمانوں کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی کثیر آبادی اس تنازع کا شکار ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: آنگ سان سوچی سے نوبل انعام واپس لینا ممکن؟

حکام کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے دی جانے والی رقم دنیا بھر کے فلاحی اداروں کی جانب سے تخیمنہ لگائی گئی رقم کا ایک چوتھائی حصہ ہے اور امریکا امید کرتا ہے کہ باقی دنیا تین چوتھائی کی امدادی رقم فراہم کرے گی۔

پناہ گزینوں سے متعلق فلاحی ادارے ریفیوجیز انٹرنیشنل کے صدر ایرک شوارٹز نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گذشتہ 30 برس سے پناہ گزینوں کے حوالے سے فلاحی کام کر رہے ہیں لیکن انہوں نے اب تک کہیں بھی پناہ گزینوں کی ایسی حالت نہیں دیکھی جیسی میانمار کی ریاست نے کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کی ضرورت ہوگی۔


یہ خبر 21 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں