وہ پروفیشنل تیراک تھی۔ شامی سول وار میں اُس کا گھر تباہ ہوگیا تھا۔ وہ شام میں دہشت گرد حملوں سے بچ کر لبنان پہنچی۔ وہاں سے ترکی اور پھر ترکی سے اُسے یونان اسمگل کردیا گیا۔ ترکی سے یونان اسمگلنگ بذریعہ سمندر ہوتی ہے، لہذا اُس نے بھی سمندر کے راستے یونان جانے کا فیصلہ کرلیا۔

کشتی میں 6 مسافروں کی گنجائش تھی لیکن 18 مہاجرین کو کشتی میں بٹھا لیا گیا۔ کشتی کی موٹر نے بیچ سمندر ساتھ چھوڑ دیا۔ کشتی ڈوبنے لگی تو اُس نے سمندر میں چھلانگ لگائی اور تیراکی کرتے ہوئے کشتی کو منزل کی طرف دھکیلنے لگی۔ اُس کے ساتھ تین مزید مہاجرین نے سمندر میں چھلانگ لگائی اور یہ سب مل کر کشتی کو منزل کی طرف لے جانے لگے۔ تین گھنٹے لگاتار تیراکی کے بعد کشتی لیسبوس پہنچ گئی۔ یہاں سے وہ جرمنی پہنچی اور ستمبر 2015 میں اُس نے برلن میں نئی زندگی کا آغاز کیا۔

اُس نے برلن میں نئے کوچ کے ساتھ سوئمنگ ٹریننگ شروع کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ Refugee Olympics Atheletes Team کی ممبر بن گئی۔ محنت رنگ لائی اور 2016 کے ریو اولمپکس میں اُس نے 100 میٹر فری اسٹائل اور 100 میٹر بٹر فلائی کے لیے نا صرف کوالیفائی کیا بلکہ 100 میٹر بٹر فلائی ہیٹ سمر اولمپکس جیت بھی لیا۔ یہ شام سے ہجرت کرکے آئے نوجوانوں کے لیے ایک امید کی کرن بن گئی۔ اُس وقت اقوام متحدہ پوری دنیا کے مہاجرین کو نئی زندگی گزارنے، ہمت نہ ہارنے اور کامیاب زندگی کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کا پروگرام تشکیل دے رہی تھی، چناچہ اقوام متحدہ نے اُسے پوری دنیا کے مہاجرین کے لیے رول ماڈل بنانے کا فیصلہ کیا اور 27 اپریل 2017 کو United Nations High Commission For Refuges نے اُسے اپنا Goodwill Ambassador مقرر کردیا۔

آپ یقیناً جان چکے ہوں گے کہ یہ شامی مہاجر یسری مردینی کی ہجرت اور کامیابی کی مختصر سی کہانی ہے۔ یسری مردینی کو پوری دنیا خصوصاً شام کے مہاجرین کے لیے رول ماڈل بنانے میں اقوام متحدہ کے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اقوام متحدہ دنیا بھر کے مہاجرین کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اُن کی حقوق کی آواز اُٹھانے کے لیے نیک نیتی سے کام کر رہی ہے۔

21 ستمبر پوری دنیا میں International Day Of Peace کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اِس دن کو تمام قوموں اور لوگوں کے مابین آئڈیلز آف پیس کی مضبوطی کے لیے منتخب کیا ہے۔ اِس سلسلے میں سال 2017 کی تھیم "Together For Peace: Respect, Safety and Dignity for all" رکھی گئی ہے۔ یہ تھیم اکٹھا رہنے کے جذبے کو تقویت دیتی ہے اور پوری دنیا کے اُن تمام مہاجرین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو کسی مجبوری کے تحت اچھی زندگی کی تلاش میں اپنا آبائی وطن کو چھوڑ کر کہیں اور آباد ہوجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ دنیا میں امن کے قیام اور مہاجرین کو بہتر زندگی دینے کے لیے اپنا کردار ادا کررہی ہے لیکن اِس مشن کو کامیاب بنانے کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

آج امن کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں اِس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ آج کی تاریخ میں دنیا کے لیے سب سے بڑے مسئلے امن کے قیام اور مہاجرین کے حقوق کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کرنا ہیں اور کرہِ ارض کے تمام انسانوں کا فرض ہے کہ وہ اِن مسائل کے حل کے لیے اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔

میری آپ سے گزارش ہے کہ اگر آپ صاحبِ حیثیت ہیں تو مالی مدد کریں، اگر آپ مصنف ہیں تو اپنی تحریروں کے ذریعے اِن مسائل کی اہمیت پر روشنی ڈالیے، اگر آپ اسکول ٹیچر ہیں تو آج کے دن اِن مسائل کے حوالے سے سیمینارز کا انعقاد کریں، اگر آپ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں تو آج ایک لیکچر امن کے قیام اور مہاجرین کے حقوق کی حفاظت پر دیں، اگر آپ عالم دین ہیں تو دنیا کو بتائیں کہ اسلام میں امن کی کیا اہمیت ہے، اگر آپ دکاندار ہیں تو اپنی آج کی کمائی کا صرف ایک فیصد حصہ اِس نیک مقصد کے لیے وقف کردیں، اگر آپ پینٹر ہیں تو ایک تصویر اِن مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے بنائیے، اگر آپ طالب علم ہیں تو کالج اور یونیورسٹی میں مہاجرین کے حق میں پُرامن ریلی کا انعقاد کیجیے، اگر آپ الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں تو آج ایک پروگرام امن کے عالمی دن کی مناسبت سے ضرور کیجیے، اگر آپ پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہیں تو آج کا اداریہ امن اور مہاجرین کے نام سے لکھیے، اگر آپ تبلیغی جماعت کے رکن ہیں تو آج کے دن تبلیغ میں مہاجرین اور امن کی اہمیت کا ذکر کیجیے، اگر آپ عیسائی ہیں تو امن کے قیام اور مہاجرین کے حقوق کے حوالے سے JESUS کی تعلیمات پر روشنی ڈالیے، اگر آپ ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہیں تو مہاجرین کے ساتھ ہونے والے مظالم کو احتجاج کی شکل میں ریکارڈ کروائیے، اگر آپ سیاسی کارکن ہیں تو تحریک کے ذریعے اِن مسائل کی اہمیت اور اِن کے حل کے لیے آواز بلند کیجیے، اگر آپ کسی این جی او کے روح رواں ہیں تو عالمی اداروں کو اِن مسائل کے حل کے لیے امداد دینے پر قائل کیجیے، اگر آپ بین الاقوامی سطح پر بننے والی پالیسیوں کا حصہ ہیں تو بین الاقوامی مہاجرین کے لیے بنائی گئی پالیسیوں میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور امن کے لیے نئی موثر پالیسیاں مرتب کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کیجیے۔

آپ بین الاقوامی اداروں کو بتائیے کہ مہاجرین اور اُن کے خاندانوں کو کسی بھی قسم کے تشدد، ظلم، غیر انسانی سلوک اور سزا کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ کسی بھی مہاجر کو غلام بنا کر نہیں رکھا جاسکتا۔ کسی بھی مہاجر سے زبردستی کام نہیں کروایا جاسکتا۔ کسی بھی مہاجر کو زبردستی مذہب کی تبدیلی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ مہاجرین کو اظہارِ رائے کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ مہاجرین کو آزادی اور اپنے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ مہاجرین کسی بھی قسم کی تکلیف، بیماری، حادثے اور خطرات کے پیشِ نظر حکومت کی ہی ذمہ داری ہونے چاہیے۔

اگر کسی مہاجر کو کسی جرم کی پاداش میں گرفتار کیا جائے تو اُسے اور اُس کے خاندان کو اُن کی زبان میں تمام تفصیلات سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔ گرفتار کیے گئے مہاجر کو اُن تمام انٹرنیشنل ٹریٹیز (عالمی معاہدوں) کے بارے میں بتایا جانا چاہیے جس کے تحت اُسے سزا یا ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی مہاجر کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا جائے تو ریاست اُسے اِس کے بدلے معاوضہ دینے کی پابند ہونی چاہیے۔ مہاجرین کو ریاستی شہریوں کی طرح تعلیم تک رسائی کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے اور ریاست مہاجرین کی ثقافتی شناخت کی عزت کو یقینی بنانے کی پابند ہونی چاہیے۔

اِس کے علاوہ مہاجرین کو خوراک کی فراہمی، نوکری، کاروبار کی سہولت، ریاستی شہریوں کے برابر سہولتوں، جائیداد کی خرید و فروخت اور مہاجرین کے فرائض اور ذمہ داریوں پر بھی مکمل اور موثر قانون سازی ہونی چاہیے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن قوانین میں وقت اور ضرورت کے تحت تبدیلیاں بھی لائی جانی چاہیے۔ اِس کے علاوہ میری صاحب استطاعت لوگوں سے بھی گزارش ہے کہ آپ مہاجر خاندانوں کے کسی ایک فرد کو ضرور نوکری دیجیے۔ آپ اُن کے بچوں میں سے کسی ایک کی تعلیم اور پرورش کی ذمہ داری اُٹھائیے۔ آپ کاروبار شروع کرنے کے لیے اِن کی مالی مدد کیجیے۔

اِن تمام باتوں کے بعد اہم ترین بات یہ کہ مہاجرین کو پناہ دینے کے حوالے سے پاکستان کا کردار ہمیشہ سے ہی اہم رہا ہے۔ UNHCR کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کی تعداد پاکستان میں ہے۔ اِس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد 15 لاکھ 87 ہزار 374 ہے، جن میں اکثریت افغان مہاجرین کی ہے۔ افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان میں روہنگیا اور صومالیہ مہاجرین بھی آباد ہیں۔ یہاں میں اِس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ تعداد صرف رجسٹرڈ مہاجرین کی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر غیر رجسٹرد مہاجرین کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد لگ بھگ 25 لاکھ سے بھی تجاوز کرسکتی ہے۔

لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم آج تک اِن مہاجرین میں سے ایک بھی ہیرو تلاش نہیں کرسکے۔ ہمیں اِن میں سے ایک بھی شخص پروفیشنل نہیں لگا۔ ہم اِن مہاجرین کو زندگی گزارنے کا سلیقہ نہیں سکھا سکے۔ ہم نے اِن مہاجرین کو اپنا اثاثہ سمجھنے کے بجائے بوجھ سمجھا ہے۔ ہم نے انہیں خود مختار بنانے کے بجائے اِن کے نام پر دنیا سے امداد لی ہے۔ ہم نے انہیں کاروبار کے لیے رقم دینے کے بجائے بھکاری بنا دیا ہے۔ ہم نے انہیں نوکریاں دینے کے بجائے زکوۃ اور فطرانے لینے پر مجبور کردیا ہے۔

میری حکومتِ پاکستان سمیت مہاجرین کو پناہ دینے والی دیگر حکومتوں سے گزارش ہے کہ آپ اِن مہاجرین میں پروفیشنل لوگوں کو تلاش کرنے کی کوشش کیجیے اور ملک کے متعلقہ شعبوں کی بہتری کے لیے اِن کی خدمات حاصل کیجیے، اِس طرح یہ مہاجر آپ کی معیشت پر بوجھ بننے کے بجائے اُسے ترقی دینے کا سبب بنیں گے۔ انہیں دیکھ کر دوسرے مہاجرین میں محنت کرنے اور زندگی نئے انداز میں گزارنے کا حوصلہ پیدا ہوگا اور عین ممکن ہے کہ اِن میں سے کچھ لوگ آپ کے ملک کی پہچان بن جائیں۔ پھر یہ عین ممکن ہے کہ اِن میں سے کچھ لوگ مستقبل کے ہیروز ثابت ہوں اور اِن میں سے کچھ لوگ پوری دنیا کے لیے رول ماڈل بن جائیں اور آنے والی نسلوں کے لیے یہ پیغام دے جائیں کہ یہ دنیا تب تک رہنے کے قابل ہے جب تک آپ جیسے مثبت سوچ رکھنے والے دور اندیش لوگ اِس دنیا میں موجود ہیں۔ لیکن اگر آج یہ اقدامات نہیں اُٹھائے گئے تو اگلے چند سالوں میں یہ دنیا رہنے کے قابل نہیں رہے گی اور انہی مہاجرین میں یسری مردینی جیسے لوگ ملک کا نام روشن کرنے کے بجائے دہشت گرد بن جائیں گے اور دنیا میں امن قائم کرنا صرف ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

آخر میں میری وزیراعظم پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ اِس نیک کام کے لیے سب سے پہلے قدم آگے بڑھائیں اور اِن مایوس اور بکھرے ہوئے مہاجرین کی زندگی سنوارنے کے لیے بارش کا پہلا قطرہ بن جائیں۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستانی عوام سمیت پوری دنیا آپ کے اِس نیک کام میں شامل ہوجائے گی اور آپ آنے والی نسلوں کے لیے رول ماڈل بن جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں