کینیڈا کے سیکڑوں شہریوں کے پاس ایگزیکٹ کی جعلی ڈگریوں کا انکشاف

اپ ڈیٹ 25 ستمبر 2017
ایگزیکٹ کراچی کے دفاتر میں 2015 میں چھاپے مارے گئے تھے—فائل فوٹو/ پی پی آئی
ایگزیکٹ کراچی کے دفاتر میں 2015 میں چھاپے مارے گئے تھے—فائل فوٹو/ پی پی آئی

کینیڈا کے قومی نشریاتی ادارے کی جانب سے مہینوں پر مشتمل تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پورے کینیڈا میں مختلف اداروں میں کام کرنے والے سیکڑوں پروفیشنلز نے پاکستانی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ کی جانب سے جاری کردہ جعلی ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں۔

کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن (سی بی سی) نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پورے کینیڈا میں مختلف اداروں میں کام کرنے والے کئی افراد کے پاس اب بھی جعلی ڈگریاں ہیں۔

سی بی سی کی ویب سائٹ میں رواں ماہ کے آغاز میں جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایک مشیر، ایک یونیورسٹی کے پروفیسر اور ریجینا شہر کے لیے کام کرنے والی ایک ڈپٹی کلرک بھی ان 800 سے زائد افراد میں شامل ہیں جنھوں نے جعلی ڈگریاں حاصل کیں اور ان میں سے اکثریت نے ایگزیکٹ سےجعلی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستانی کمپنی پر دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں بیچنے کا الزام

ایگزیکٹ امریکا کے وکیل ٹوڈ اے ہولیمن نے سی بی سی کو تحریری جواب میں آگاہ کیا کہ کمپنی 'کسی آن لائن تعلیمی ویب سائٹ یا اسکول نہیں چلاتی یا ملکیت نہیں ہے اور نہ ہی کبھی یہ ثبوت سامنے آئے کہ ایگزیکٹ کے پاس یا اس کی ملکیت میں اس طرح کی ویب سائٹ یا اسکول ہیں'۔

مزید پڑھیں:شعیب شیخ منی لانڈرنگ کیس میں بری

ہولیمن کا کہنا تھا کہ ڈپلوما ملز کو ایگزیکٹ کے صارفین نے بنائی تھیں اور اس سے 'مبینہ طور پر کوئی غلط کام کرنے یا فراڈ اور تعاون کے حوالے کو تقویت نہیں ملتی کیونکہ صارفین آزاد کاروباری ہیں'۔

ڈپلوما مل کی تحقیق

ڈپلوما ملز کی تفتیش کے لیے سی بی سی کے پروگرام کے اراکین باآسانی ایگزیکٹ سے منسلک جامعات سے پی ایچ ڈی کی تین ڈگریاں خرید پائے جن میں سے دو ڈگریاں المیڈا یونیورسٹی اور ایک ڈگری گیٹسیویل یونیورسٹی سے مارک شیٹ کے ساتھ حاصل ہوئیں جس میں انھیں 3.92 جی پی اے سے نوازا گیا تھا اور حاضری کے ریکارڈ کے لیے صرف ایک ہزار 550 ڈالر لیے گئے۔

تفتیش کے دوران پروگرام کے کارکنوں کو ایگزیکٹ سے کاروباری ریکارڈ بھی حاصل ہوا جو امریکا میں موجود ایگزیکٹ سے منسلک اسکولوں سے ڈگریاں حاصل کرنے والے افراد کے حوالے سے تھا جہاں ان اداروں نے موجودگی کے ایڈریس نہ ہونے کے باوجود پیسوں کے عوض ڈگریاں جاری کیں۔

یہ بھی پڑھیں:ایگزیکٹ کے ساتھ دستاویزات کی تصدیق کا معاہدہ نہیں، امریکا

سی بی سی کے کارکنوں کو ڈگریاں میل کے ذریعے بھیجی گئیں جبکہ ان سے یونیورسٹی کے نمائندے نے فون پر صرف ملازمت اور تعلیمی ریکارڈ حاصل کیا اس کے علاوہ کوئی کورس ورک نہیں تھا۔

سی بی سی کے کارکنوں کو ان ڈگریوں کے حصول کے لیے فیڈرل انوسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی سابق ایجنٹ ایلن ایزل کا تعاون حاصل تھا جنھیں دہائیوں تک ڈپلوما ملز کی تفتیش کا تجربہ حاصل ہے۔

واضح رہے کہ ایگزیکٹ اسکینڈل مئی 2015 میں سامنے آیا تھا جب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ کمپنی آن لائن جعلی ڈگریاں فروخت کرکے سالانہ لاکھوں ڈالرز کماتی ہے۔

یہ رپورٹ منظر عام پر آتے ہی ایگزیکٹ کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے تھے اور ریکارڈ ضبط کرکے انھیں سیل کردیا گیا تھا جبکہ سی ای او شعیب شیخ اور دیگر اہم عہدیداروں کو حراست میں لے کر الزامات کی تحقیقات شروع کردی گئی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں