لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی عدالتی تحقیقات سے متعلق تمام درخواستیں سننے سے معذرت کے بعد نیا فل بینچ تشکیل دے دیا گیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس یاور علی، جسٹس انوارالحق اور جسٹس عبدالسمیع خان پر مشتمل فل بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق پنجاب حکومت سمیت متعدد درخواستوں پر سماعت کی اور 'ذاتی وجوہات' کی بناء پر سماعت سے معذرت کرتے ہوئے نیا فل بینچ تشکیل دینے کی ہدایت کردی۔

بعدازاں جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس شہباز رضوی پر مشتمل نیا فل بنچ تشکیل دیا گیا، جس نے درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے بعد عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ اپیل میں انتہائی سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے ہیں، کیس کو تاخیر کا شکار نہیں کیا جائے گا، ہم روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا ارادہ رکھتے ہیں۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ اہم قانونی سوال یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پبلک کی جا سکتی ہے یا نہیں جبکہ عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ رپورٹ کی تشکیل کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا گیا۔

بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیر (2 اکتوبر) تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 23 ستمبر کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں جسٹس باقر نجفی انکوائری رپورٹ منظرعام پر لانے کے سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔

20 صفحات پر مشتمل انٹرا کورٹ اپیل میں شہداء کے بیس ورثاء کو فریق بنایا گیا، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سنگل بنچ نے حکومتی موقف پوری طرح نہیں سنا اور یکطرفہ فیصلہ دیا۔

اپیل میں کہا گیا کہ انکوائری رپورٹ کے متعلق درخواستیں فل بنچ میں زیر التوا ہیں، لہذا سنگل بنچ فیصلہ نہیں کرسکتا۔

مزید کہا گیا کہ عدالتی کمیشن کی تشکیل کے خلاف بھی درخواستیں فل بنچ کے پاس زیر سماعت ہیں، سنگل بنچ نے جلد بازی میں ہوم سیکریٹری کا موقف سنے بغیر قانونی تقاضوں کے برعکس فیصلہ دیا، جبکہ فیصلے سے قبل ہوم سیکریٹری سے تحریری جواب طلب نہیں کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کو عام کرنا غیر قانونی عمل: پنجاب حکومت

اپیل میں کہا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ شائع نہ کرنا حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے، حکومت جوڈیشل انکوائری حقائق جاننے کے لیے کراتی ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جاسکے۔

پنجاب حکومت نے استدعا کی تھی کہ عدالت انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے سنگل بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

دیگر درخواستوں میں جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق نظرثانی بورڈ کی تشکیل کے خلاف درخواستیں شامل ہیں۔

واضح رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا، مگر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے باعث 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

بعدازاں حکومت نے اس واقعے کی انکوائری کروائی، تاہم رپورٹ کو منظرعام پر نہیں لایا گیا، جس کا مطالبہ سانحے کے متاثرین کے ورثاء کی جانب سے متعدد مرتبہ کیا جاچکا ہے۔

گذشتہ ماہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: باقر نجفی رپورٹ منظرعام پر لانے کا حکم جاری

مذکورہ درخواست پر سماعت کے بعد رواں ماہ 21 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء اور زخمیوں کا حق ہے کہ انھیں اصل ذمہ داروں کا پتہ ہونا چاہیے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عوامی دستاویز ہے، جوڈیشل انکوائری عوام کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اسے عوام کے سامنے ہونا چاہیے۔

جس کے بعد پنجاب حکومت کی جانب سے انٹرکورٹ اپیل دائر کی گئی تھی۔

جسٹس باقر نجفی رپورٹ فراہم نہ کرنے پر توہین عدالت کی سماعت ملتوی

دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے عدالتی حکم کے باوجود سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ فراہم نہ کرنے پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، چیف سیکریٹری اور ہوم سیکریٹری پنجاب کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کل (26 ستمبر) تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ 23 ستمبر کو آصف اقبال اور متاثرہ افراد کی جانب سے دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت عالیہ کے سنگل بنچ نے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ فوری طور پر شائع کرنے کا حکم دے رکھا ہے، عدالتی حکم کے مطابق درخواست گزاروں نے رپورٹ کی وصولی کے لیے متعلقہ فورمز سے رجوع کیا مگر انہیں رپورٹ فراہم نہیں کی گئی جو کہ آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت واضح طور پر توہین عدالت ہے۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاون کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کیلئے درخواست

درخواست میں کہا گیا تھا کہ چیف سیکرٹری پنجاب اور ہوم سیکرٹری پنجاب، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ماتحت ہیں اور وزیراعلیٰ کے دباؤ پر رپورٹ فراہم نہیں کی جا رہی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت وزیراعلیٰ پنجاب، چیف سیکریٹری اور ہوم سیکریٹری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں