سابق وزیراعلیٰ سندھ، سید قائم علی شاہ کو اپنے دور میں متعدد بار یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ "سندھ میں تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچے اور بے روزگاری کے خاتمے جیسے اقدامات کی تعریف تو پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔" مگر اسی سانس میں یہ بھی فرما دیا کرتے کہ سندھ کی ترقی اور خوشحالی کو دیکھنے کے لیے آنکھیں چاہیے جو اُن کے مخالفین کے پاس نہیں۔

اِس بات کی تو وہ خود ہی وضاحت کر سکتے تھے کہ اُن کے کون سے اقدامات اور سندھ میں کون سی ترقی دیکھ کر مخالفین ان کی تعریفوں پل باندھا کرتے ہیں؟ شاہ صاحب آپ سے یہ گلہ رہے گا۔

چلیے ان مخالفین کو چھوڑیے یہی بتا دیجیے کہ مخالفین یا ہم جیسے عوام الناس کو سندھ میں ترقی دیکھنے کے لیے آنکھوں کے کس ماہر پیوندکار سے رجوع کرناہے اور کس دنیا کی آنکھیں اپنے چہرے میں فٹ کروانی ہے، یا پھر سستے میں جان چھڑانے کے لیے کون سے نمبر کا چشمہ پہننا ہےٓ کہ جس سے کراچی سے کشمور تک سندھ کا سفر کرکے ترقی کا نظارہ نصیب ہو؟َ اگر وہ یہ بتادیتے تو شاید آج سندھ کی ترقی دیکھنے کا ہمارا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو جاتا۔

قائم علی شاہ اور ان کا دور تو ماضی کا حصہ ہوئے، حال پر نظر ڈالتے ہیں، تو جناب 17 ستمبر کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے آبائی علاقے، ضلع دادو میں پیپلز پارٹی نے ایک بہت بڑے جلسے کا انعقاد کیا۔ سندھی میڈیا کے مطابق 50 ایکڑ رقبے پر محیط میدان بلاول بھٹو زرداری کی آمد سے قبل ہی بھر گیا تھا، جبکہ سندھ بھر سے جلسے میں شرکت کے لیے لائے گئے کارکنان کی گاڑیوں کے لیے 15 ایکڑ رقبے پر پارکنگ ایریا بنایا گیا تھا۔

ویسے تو اِس سے پہلے بھی پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت گزشتہ 8 برسوں سے بڑے بڑے دعوے کرتی آئی ہے، جو وہ گزشتہ 8 سال سے کرتی آ رہی ہے، لگتا ہے کہ اگلے سیاسی اکھاڑے میں اترنے تک ان دعوؤں کے طبل و نقاروں سے کام چلایا جائے گا۔

آصف زرداری کے آبائی شہر نوابشاہ کی ایک جھلک—فوٹو: بے نظیر آباد ٹائمز فیس بک
آصف زرداری کے آبائی شہر نوابشاہ کی ایک جھلک—فوٹو: بے نظیر آباد ٹائمز فیس بک

اِس جلسے میں جہاں بلاول بھٹو زرداری، سید مراد علی شاہ اور دیگر پارٹی رہنماؤں نے وفاقی حکمران جماعت، نواز لیگ اور تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا، وہیں سندھ میں ترقی اور خوشحالی کی ایسی دنیا کا نقشہ کھینچا جو ہم جیسے کم سے کم ہوش والوں کو بھی نظر نہیں آتی۔ مجھے 17 ستمبر کے جلسے میں بلاول بھٹو اور پارٹی رہنماؤں کی تقریر سن کر قائم علی شاہ کا بیان یاد آ گیا کہ ’سندھ کی ترقی دیکھنے کے لیے مخالفین کو آنکھیں چاہیے، جو اُن کے پاس نہیں۔‘

بلاول بھٹو اور وزیر اعلیٰ سندھ نے صحت، تعلیم، زراعت، بنیادی ڈھانچے اور بے روزگاری کو ختم تو نہیں لیکن کم کرنے کے دعوے کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے انتخابات میں اگر وفاقی حکومت ملی تو نہ صرف دادو بلکہ سندھ سمیت پورے پاکستان کی قسمت ہی بدل دیں گے، وہ باردانے کی منصفانہ تقسیم کروائیں گے، ہر دیہات میں اسکول اور ہسپتال جیسی بنیادی سہولیات فراہم کریں گے، دیہات میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سمیت زراعت کی بہتری اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے دن رات ایک کردیں گے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور رہنما جلسے کے دوران اِس بات کو نہ جانے کیوں بھول گئے کہ اِس وقت بھی وہ ملک کے دوسرے بڑے صوبے میں برسر اقتدار ہیں، اِس وقت بھی وہ سندھ میں باردانے کی منصفانہ تقسیم کروا سکتے ہیں، وہ نہ جانے کیوں یہ بات بھول گئے کہ سندھ میں تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، قانون کی بالادستی، امن و امان اور بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے انہیں وفاق میں حکومت بنانے کی قطعی ضرورت نہیں۔

اتفاق سے جس دن بلاول بھٹو زرداری کا دادو میں جلسہ تھا، اُس سے کچھ دن قبل ہی دادو کے قریبی شہر سیہون کے گوٹھ ’جھانگارا‘ میں شادی سے انکار پر جواں سالہ لڑکی تانیہ خاصخیلی کو قتل کردیا گیا تھا، اُسی دن مجھے ٹوئٹر پر پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ کے ایک اسپتال کی افسوس ناک تصاویر نظر آئیں، اُسی ہفتے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ایک بااثر وڈیرے کے گھر میں ماہانہ 3500 روپے تنخواہ پر کام کرنے والی 16 سالہ لڑکی ’رادھا بھیل‘ کی تشدد زدہ لاش ملی، مگر چونکہ وہ اقلیتی برادری کی بیٹی تھی، اور وڈیرا کسی بھی اقلیتی یا اکثریتی برادری سے ہی کیوں نہ ہو، بہرحال وہ محترم ہوتا ہے، اِس لیے دیگر کئی کیسز کی طرح اُس کے قتل کی بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

اور یہ واقعات صرف ایک ہفتے تک محدود نہیں، اگر سندھ کے اخبارات اور سوشل میڈیا کا یومیہ جائزہ لیا جائے تو اوسطاً یومیہ 3 سے 5 خواتین ’غیرت کے نام پر قتل‘ کردی جاتی ہیں، جب کہ یومیہ 2 سے 3 بچے تشدد اور وحشت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، شاید ہی سندھ کا کوئی ایسا شہر ہو جس میں کسی ماہ گٹر کے کھلے ہونے کی وجہ سے کسی ماں کی گود نہ اجڑتی ہو، شاید ہی کوئی ایسا شہر یا ہسپتال ہو، جہاں کوئی حاملہ خاتون دوران حمل ڈاکٹرز کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہسپتال کے باہر تڑپتے ہوئے بچے کو جنم دینے پر مجبور نہ ہوتی ہو، یا پھر زندگی کی بازی ہی نہ ہار جاتی ہو، شاید ہی سندھ کا کوئی ایسا شہر ہو جہاں کسی گلی میں کئی ہفتوں سے کھڑے گٹر کے پانی کو کبھی میونسپلٹی کا عملہ صاف کرنے آتا ہو۔

حیدرآباد میں رادھا بھیل کے قتل کے خلاف ہونے والا مظاہرہ—فوٹو: فیس بک
حیدرآباد میں رادھا بھیل کے قتل کے خلاف ہونے والا مظاہرہ—فوٹو: فیس بک

اگر کہا جائے کہ سندھ اِس وقت اپنے سب سے تباہ حال ترین دور سے گزر رہا ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ چند ہفتے قبل ہی واٹر کمیشن نے رپورٹ دی تھی کہ سندھ کے دارالحکومت سمیت صوبے کا کوئی ایسا شہر نہیں، جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جا رہا ہو، یہاں تک کہ کراچی بورڈ اور دیگر شہروں کے واٹر سپلائی کی لائینوں میں بھی مضرِ صحت اجزاء پائے گئے، لیکن پیپلز پارٹی کے حکمران کبھی آنکھوں نہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں یا پھر کبھی تخیل میں آباد سندھ کا نقشہ کھینچتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ کی شیخ زید کالونی کا منظر—فوٹو: فیس بک
پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ کی شیخ زید کالونی کا منظر—فوٹو: فیس بک

اگر واٹر کمیشن کی طرح صحت کمیشن مقرر کرکے سندھ کا جائزہ لیا جائے تو مضرِ صحت پانی پینے کی وجہ سے ممکنہ طور پر سندھ کی 60 سے 70 فیصد آبادی ہیپاٹائیٹس، جلد، پیٹ، گردوں اور خارش سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا پائی جائے گی۔ شمالی اور وسطی سندھ کے کچھ اضلاع تو ایسے ہیں، جہاں کی 80 فیصد آبادی کسی نہ کسی سطح کی ہیپاٹائیٹس میں مبتلا ہے، کئی دیہات ایسے ہیں، جہاں کئی کئی خاندان ہیپاٹائیٹس، خارش، بینائی، گردوں اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، جو غربت کی وجہ سے علاج کرانے سے قاصر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سندھ کا سب سے زیادہ پسماندہ علاقہ صرف صحرائے تھر ہے، اگر پورے صوبے کا بہتر انداز میں جائزہ لیا جائے تو، خیرپور، نوابشاہ، گھوٹکی، شکارپور، سکھر، کندھ کوٹ-کشمور، قمبر-شہداد کوٹ، کاچھو، دادو، لوئر اور اپر سندھ سمیت وسطی اور شمالی سندھ کے تمام علاقے یکساں طور پر پسماندہ، بنیادی سہولیات سے محروم، تعلیم و صحت کی ابتر سہولیات کا نظارہ پیش کریں گے، سید قائم علی شاہ صاحب ہماری آنکھوں کو یہی نظر آتا ہے اور مراد علی شاہ صاحب ہمیں حقیقی دنیا میں سندھ کا حال کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے۔

سندھ میں صحت کی سہولیات کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ کی تقریباً پونے 5 کروڑ آبادی کے لیے سرکاری سطح پرصرف 14 ہزار ڈاکٹرز، 2 ہزار نرسز، 12 ہزار پیرا میڈیکل اسٹاف، 125 دیہی صحت مراکز، 757 بنیادی صحت کے مراکز، 792 ڈسپینسریز، 67 زچہ و بچہ کی صحت کے مراکز، 3 ذیلی صحت مراکز، ایک ہومیوپیتھک ڈسپینسری، ایک شہری صحت مرکز، 36 یونانی شفا خانے، 14 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز (ڈی ایچ کیو) ہسپتال، 49 تعلقہ ہیڈ کوارٹرز (ٹی ایچ کیو) ہسپتال اور دیگر 27 بڑے ہسپتال موجود ہیں، اتنے محدود ڈاکٹرز اور ہسپتالوں سے عوام کو دستیاب سہولیات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

نوابشاہ شہر کی ایک گلی—فوٹو: فیس بک
نوابشاہ شہر کی ایک گلی—فوٹو: فیس بک

لیکن ہمیں پیپلز پارٹی کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمیں ’سندھ میں ترقی و خوشحالی دیکھنے کے لیے آنکھوں کی ضرورت ہے۔‘

ایسا بلکل نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی نے گزشتہ 8 سال میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کروائے، یا انہوں نے کوئی ہسپتال یا اسکول نہیں بنوایا، لیکن آبادی کے تناسب اور جس طرح کے کام کروائے جاتے ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں، اگر اتفاق سے کسی شہر میں کوئی تین کلو میٹر کی سڑک تعمیر کی بھی جاتی ہے تو اُس میں استعمال ہونے والا مٹیریل اِس قدر ناقص ہوتا ہے کہ وہ روڈ اگلے ہی ہفتے اکھڑ جاتا ہے، ایسے ہی اگر کہیں ایک اسکول بنوایا بھی جاتا ہے تو اُس کی عمارت اِس قدر کمزور بنائی جاتی ہے کہ پہلے ماہ میں ہی خستہ حالی کا شکار ہونے لگتی ہے، اور اُس اسکول میں دیگر سہولیات کا بندوبست کیا ہی نہیں جاتا۔

لاڑکانہ میں تعمیر کیا گیا نیا فلائی اوور—فوٹو: فیس بک
لاڑکانہ میں تعمیر کیا گیا نیا فلائی اوور—فوٹو: فیس بک

یوں اگر کسی ہسپتال کو اپ گریڈ کرنے کی ضرور محسوس ہوتی ہے تو اُسے اپ گریڈ کرنے میں اتنی تاخیر کردی جاتی ہے کہ مسائل پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، اور تو اور اوپر سے ایسا کوئی ایک بھی کام کرنے کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے یا عوام کو یہ یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ سیاستدانوں نے ہی اُن کو سڑکیں، ہسپتال اور اسکول دیے۔ لیکن میں حیران ہوں کہ نہ جانے کیوں سیاستدان اور حکمران یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ یہ سب کر کے عوام پر احسان نہیں بلکہ اپنا فرض انجام دے رہے ہیں، کیوں کہ عوام کو سہولیات فراہم کرنا ہی سیاستدانوں، افسر شاہی اور حکمرانوں کی اول ذمہ داری اور ملازمت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں

riz Oct 03, 2017 01:57pm
well done Sagar,, yes we ned to show the real face of sindh,,, it seems PPP deliberately deteriorated conditions in urban areas of sindh,,, the above mentioned cities are PPP strongholds where they failed miserably, just imagine cities where PPP didnt win (Hyderabad, Mirpurkhas, Karachi). these three cities are facing complete biased policies of PPP coz here other party won elections,, what a shame,,