اسلام آباد ہائی کورٹ نے خفیہ ایجنسیوں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی آپس میں ’رسہ کشی‘ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ کی جانب سے یہ ریمارکس سامنے آنے کے بعد انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ایک جاسوس کی جانب سے اپنے سینئرز کے خلاف دہشتگردوں کی مبینہ معاونت کے الزام کی تحقیق کے لیے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی مدد حاصل کرنے کا حالیہ مطالبہ، مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کا سبب نہیں بن سکے گا۔

ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آئی بی کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی جانب سے دائر کردہ پٹیشن پر سیکریٹری داخلہ سے جواب بھی طلب کرلیا۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے برطرف وزیراعظم نواز شریف اور آئی بی کے سربراہ کے درمیان مبینہ ملاقات کے انکشاف کے بعد سے انٹیلی جنس بیورو تنقید کی زد پر ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا آئی بی چیف سے فوری استعفیٰ کا مطالبہ

حالیہ دنوں دہشت گردوں کے ساتھ مبینہ تعلقات رکھنے والے سیاستدانوں کے حوالے سے سامنے آنے والی مبینہ فہرست کو بھی آئی بی سے منسوب کیا گیا تھا، جس سے خفیہ ایجنسی لاتعلقی کا اعلان کرچکی ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ میں جاری پاناما پیپرز کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے الزام عائد کیا تھا کہ آئی بی شریف خاندان کے خلاف تحقیقات میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے۔

واضح رہے کہ پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کے لیے قائم کی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، قومی احتساب بیورو (نیب) اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے نمائندے شامل تھے۔

آئی بی کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس (اے ایس آئی) ملک مختار احمد شہزاد نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ’کئی دہشت گردوں کے ازبکستان، ایران، افغانستان، شام اور بھارت میں تعلقات ہونے کے حوالے سے رپورٹ فراہم کی تھی لیکن بیورو نے انٹیلی جنس رپورٹس کی صورت میں فراہم کردہ ٹھوس شواہد کے باوجود اس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کی‘۔

درخواست کے مطابق اس بارے میں آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی آگاہ کیا گیا تھا جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: انٹیلی جنس بیورو پر دہشت گردوں کے تحفظ کا الزام

خیال رہے کہ پہلے اس کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق کو سونپی گئی تھی تاہم سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے جج سے گزارش کی کہ کیس جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ٹرانسفر کردیا جائے، کیونکہ اس سے ملتا جلتا معاملہ ان کی عدالت میں التواء کا شکار ہے۔

بدھ (27 ستمبر) کو جسٹس صدیقی نے اس درخواست پر سماعت کا آغاز کیا، سماعت کے دوران اے ایس آئی آبدیدہ ہوگئے اور جج سے استدعا کی کہ اس کیس کو جلد از جلد تحقیق کے لیے آئی ایس آئی کو روانہ کیا جائے۔

تاہم جسٹس صدیقی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دونوں خفیہ ایجنسیوں کے درمیان جاری ’رسہ کشی‘ کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ اس صورتحال میں آئی ایس آئی کو تحقیقات کا اختیار کس طرح دیا جاسکتا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی تحقیقات کے لیے متعلقہ ادارہ سیکریٹری داخلہ ہے، جسے درخواست میں فریق نامزد نہیں کیا گیا۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر مسرور شاہ نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں پٹیشن میں ترمیم کی اجازت دی جائے تاکہ وہ سیکریٹری داخلہ کو فریق نامزد کرسکیں۔

عدالت نے اس درخواست کو منظور کرلیا جس کے بعد سیکریٹری داخلہ کو فریق نامزد کردیا گیا، درخواست کے دیگر فریقین میں وزیراعظم، وزیراعظم کے سیکریٹری، ڈی جی آئی بی اور ڈی جی آئی ایس آئی شامل ہیں۔

عدالت کی جانب سے سیکریٹری داخلہ کو درخواست کا جواب جمع کرانے کی ہدایات جاری کی گئیں۔

پٹیشنر کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ اسے پٹیشن دائر کرنے کے بعد سے دھمکی آمیز کالز کا سامنا ہے، ساتھ ہی انہوں نے عدالت سے اپنا اور اہل خانہ کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنے کی بھی درخواست کی۔

جسٹس صدیقی نے پولیس کو درخواست گزار اور ان کے اہل خانہ کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے معاملے کی مزید سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کردی۔


یہ خبر 28 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں