غیر ملکی بوہرا کمیونٹی نے کراچی کو کیسا پایا؟

اپ ڈیٹ 02 اکتوبر 2017
گورنر سندھ محمد زبیر، وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کراچی میں ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین کا خطاب سن رہے ہیں۔ — پی پی آئی
گورنر سندھ محمد زبیر، وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کراچی میں ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین کا خطاب سن رہے ہیں۔ — پی پی آئی

پاکستان میں اگر کسی شہر کو بہترین میزبان مانا جاتا ہے تو وہ شہر لاہور ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی بڑی غیر ملکی شخصیات آتی ہیں اُنہیں لاہور کی سیر ضرور کروائی جاتی ہے، اور یہ بہت حد تک درست بھی ہے۔ خوبصورت باغات اور وہاں کی گرم جوشی مہمان کا دل موہ لیتے ہیں۔ اِسی لیے شاید پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) بھی کرکٹ میچوں کے لیے لاہور ہی کا انتخاب کرتا ہے۔

اگر کراچی شہر کی بات کی جائے تو یہ داؤدی بوہرا جماعت کا ایک بڑا مرکز ہے۔ اِسی وجہ سے جماعت کے روحانی پیشوا اور داعی المطلق ڈاکٹرسیدنا مفضِل سیف الدین نے اِس مرتبہ عشرہ مبارکہ یا ایامِ عزا گزارنے کے لیے کراچی کا انتخاب کیا۔ 21 سال بعد یہ پہلا موقع ہے جب داؤدی بوہرا جماعت کے سربراہ عشرہ مبارکہ کے لیے پاکستان تشریف لائے ہیں۔

بس یہ فیصلہ ہونے کی دیر تھی کہ دنیا بھر سے بوہرا برادری کے ہزاروں افراد نے کراچی کا رخ کرنا شروع کردیا۔ محرم الحرام کی آمد سے قبل ہی کراچی کے جس ہوٹل میں جائیں وہاں بڑی تعداد میں اس برادری کے افراد اپنے مخصوص لباس میں نظر آنے لگے۔ اِن سب کا مقصد ایام عزا کے دوران داعی المطلق جناب سیدنا مفضل سیف الدین کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرنا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر سے بوہرا برادری کے 40 ہزار افراد کراچی آئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں مہمانوں کی آمد نے کراچی شہر کو ایک نئی زندگی اور حوصلہ دیا۔ جانے اور اَن جانے میں کراچی کے شہریوں کے رویے نے مہمانوں کو اِس قدر متاثر کیا کہ وہ کہہ اٹھے کہ کراچی شہر نے کھلے دل سے استقبال کیا اور حق میزبانی ادا کردیا ہے۔

جب اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی شہری کراچی آئے ہوئے ہوں تو کیوں نہ اُن سے رائے لے لی جائے، بس اِسی مقصد کے تحت میں نے اپنے دوست شمعون باقر علی کے گھر کا رخ کیا۔ ڈیفنس میں واقع میرے دوست کے گھر میں ہندوستان اور برطانیہ سے آئے بوہرا برادری سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 20 مہمان ٹھہرے ہوئے تھے۔ لباس کی یکسانیت کی وجہ سے یہ پہچان کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا کہ کون پاکستانی ہے اور کون غیر ملکی۔ ایسے میں بات چیت کا آغاز میزبان سے ہوا۔

پڑھیے: وزیراعلیٰ اور گورنر سندھ کی بوہرہ برادری کے پیشوا سے ملاقات

شمعون باقر علی کا کہنا تھا کہ ہر شہر کی طرح کراچی نے بھی ایام عزا کے لیے اپنی تیاری کی تھی اور بوہرا برادری کے ایک وفد نے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کرکے ویزہ اور دیگر انتظامات کی یقین دہانی حاصل کی۔ کراچی شہر کی تیاری دیکھتے ہوئے سیدنا مفضل نے ایام عزا کے لیے کراچی کو اپنا مرکز قرار دیا۔

کراچی آنے کے لیے بوہرا جماعت کے لوگوں کو جو سفر کرنا پڑا وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کا تھا۔ سب سے زیادہ بوہرا ہندوستان سے آئے ہیں۔ اب چونکہ ممبئی اور کراچی کے درمیان پروازیں نہیں چل رہیں، اِس لیے اُن کو پہلے ممبئی سے دبئی اور پھر دبئی سے کراچی کا سفر کرنا پڑا جو نہ صرف مہنگا ثابت ہوا بلکہ اِس طرح وقت بھی زیادہ لگا۔ اِس کے علاوہ 12 ہزار سے زائد بوہرا واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچے ہیں۔ اِن کا سفر بھی بہت طویل تھا۔ ممبئی سے پہلے ٹرین میں کئی ہزار کلومیٹر کا سفر کرکے امرتسر پہنچے جہاں سے واہگہ باڈر عبور کیا اور پھر لاہور سے کراچی کی طویل مسافت طے کی۔

بات چیت شروع ہوئی اور جب محفل میں لوگوں کو پتہ چلا کہ میں ایک صحافی ہوں اور ان سے کراچی میں قیام سے متعلق جاننا چاہتا ہوں تو میرا تعارف یاسمین شماریہ سے خصوصی طور پر اُن کی والدہ نے کروایا۔ یاسمین شماریہ ہندوستانی نژاد برطانوی شہری اور انجینئر ہیں۔ اپنی کم عمری کے باوجود یورپ، ایشیاء اور امریکا کی بھرپور سیاحت کرچکی ہیں۔

یاسمین کا کہنا تھا کہ کراچی آنے سے قبل اِس شہر کے بارے میں تصور یہی تھا کہ یہ ممبئی سے ملتا جلتا شہر ہوگا۔ مگر ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ صدر میں طاہری مسجد کے آس پاس گھومیں تو ممبئی سے کسی قدر مماثلت لگتی ہے، لیکن اگر ڈیفنس کو دیکھا جائے تو امریکی شہر ہیوسٹن سے مشابہت ملتی ہے۔ کراچی شہر کی سڑکیں کشادہ ہیں اور ممبئی کے مقابلے میں یہ شہر زیادہ صاف اور ستھرا ہے۔ لیکن اِن سب خصوصیات سے ہٹ کر جو گرم جوشی کراچی کے شہریوں میں ملی وہ نایاب ہے۔

بات چیت کا رخ کھانے پینے کی جانب ہوا تو یاسمین شماریہ کا چہرہ مزید کھل اُٹھا۔ یاسمین نے کہا کہ وہ بھی میری طرح کی ایک فوڈی یعنی (کھانے پینے کا شوق رکھنے والی) ہیں۔ نت نئے کھانے کھانے کا شوق رکھتی ہیں۔ کراچی کی نہاری تو اُن کے دل میں سما گئی ہے۔ چونکہ بھارت میں بکرے یا گائے کا گوشت کم ہی دستیاب ہوتا ہے، اِس لیے پاکستان آکر یہ شوق بھرپور طریقے پورا کیا۔ نہاری کے علاوہ کباب، حلیم، بار بی کیو اور انواع و اقسام کے گوشت سے بنے کھانے کھائے ہیں۔ یہ سب بات کرتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے یاسمین کے منہ میں پانی بھر گیا ہو اور کھانوں کا ذائقہ پھر سے تازہ ہو گیا ہو۔

داؤدی بوہرا افراد اپنے داعی المطلق ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین کے بارے میں گفتگو نہایت ادب و احترام سے کرتے ہیں۔ مفضل سیف الدین حافظِ قرآن اور مصر کی الازہر یونیورسٹی سے گریجویٹ ہیں، اور اِنہیں جامعہ کراچی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی ہے۔ اس کے علاوہ وہ علی گڑھ مسلم یورنیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں۔

مزید پڑھیے: قابلِ احترام رہنما

داؤدی بوہرا کمیونٹی نے افریقا اور ایشیاء کے ساحلی شہروں کو مسکن بنایا ہوا ہے۔ کراچی، ہندوستانی ریاست گجرات، ممبئی اور یمن میں اِس کمیونٹی کے اہم مراکز ہیں۔

تسلیم شیخ بھی برطانیہ سے عشرہ مبارکہ گزارنے کے لیے تنہا کراچی آئی تھیں۔ وہ کئی مرتبہ پہلے بھی کراچی آچکی ہیں مگر اِس مرتبہ تو کراچی نے اُن کا دل ہی جیت لیا۔ "یوں لگتا ہے کہ پوری قوم اور ریاست نے اپنے وسائل ہمارے لیے وقف کر دیے ہیں۔ امیگریشن سے لے کر ہر مقام پر نہایت خوش اخلاقی برتی گئی اور خصوصی کاؤنٹر پر چند منٹوں میں انٹری کی مہر لگ گئی۔ طاہری مسجد پر جو سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے وہ بہترین تھے۔ زیادہ سیکیورٹی اُن کے لیے مسئلہ نہیں بلکہ ذہنی سکون کا سبب تھی۔"

سیدنا مفضل کو جس طرح عزت و تکریم دی گئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ سیدنا کو نہ صرف بہترین گاڑی سفر کے لیے دی گئی بلکہ آرمی کا موٹرکیڈ اور بھرپور سیکیورٹی دستیاب رہی۔

تسلیم شیخ کہتی ہیں کہ عام شہریوں کا تعاون مثالی تھا۔ انہوں نے تنہا بغیر کسی خوف کے رکشے، ٹیکسی اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا اور ہر کسی کی جانب سے مسکراہٹ کے ساتھ استقبال ہوا۔ اپنے مخصوص لباس میں مارکیٹوں میں گھومنے پر کسی مقامی فرد کی طرف سے کوئی منفی ریمارکس بھی نہیں ملے۔

بات چیت کے دوران میزبان کی جانب سے آئس کریم پیش کی گئی۔ جس کا ذائقہ لاجواب تھا۔ پوچھنے پر پتہ لگا کہ یہ آئس کریم بوہرا خصوصی طور پر تیار کرتے ہیں۔ ابھی مسز تسلیم شیخ سے بات چیت جاری تھی کہ قریب بیٹھے بزرگ بھی گویا ہوئے۔ اُن کا نام شیخ محمد شیخ عبدِ علی ماما تھا اور وہ ممبئی کے رہائشی تھے۔

اُن کے خاندان کو شیخ محمد کا لقب، سیدنا کی جانب سے عطا کیا گیا تھا۔ شیخ عبد علی ماما کہتے ہیں کہ وہ سیدنا مفضل کی سیکیورٹی کے حوالے سے ممبئی پولیس کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ ممبئی کے مقابلے میں کراچی پولیس کے افسران اور سپاہی سب ہی خوش اخلاق اور متحمل مزاج ہیں۔ تحمل اور شائستگی سے بات چیت کرتے ہیں اور جس طرح سے سیدنا مفضل کو سیکیورٹی دی جارہی ہے وہ بہت مثالی ہے۔

گفتگو کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ داؤدی بوہرا جماعت اب محض تاجر برادری نہیں رہی، بلکہ اِس کی نئی نسل اعلی تعلیم یافتہ اور پروفیشنل شعبوں کا رخ کررہی ہے۔ سیدنا کی ہدایت پر بوہرا نوجوان طب، انجینیئرنگ، قانون اور دیگر شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ شیخ عبد علی ماما کے ایک بیٹے نے کینسر پر پی ایچ ڈی کیا ہے۔ خود شمعون باقر کے بیٹے کینسر کے ماہر ڈاکٹر ہیں اور شوکت خانم میموریل میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ شعمون باقر کا کہنا تھا کہ سیدنا پڑھ لکھے نوجوانوں سے بہت محبت کرتے ہیں اور اُن کا قرب پانے کے لیے نوجوان اعلی تعلیم یافتہ بن رہے ہیں۔

داؤدی بوہرا جماعت کی عشرہ مبارکہ کے لیے کراچی آمد نے شہر کی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ عام طور پر محرم الحرام میں کاروباری اور تفریحی سیاحت منجمد ہوتی ہے جس کی وجہ سے شہر میں ہوٹلز اور دیگر کاروبار مندی کا شکار رہتے ہیں، مگر اِس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ محرم الحرام کے دوران کراچی کے تمام بڑے ہوٹلز اپنی گنجائش سے زیادہ کی بکنگ پر تھے۔ ہوٹل کے کمروں میں میٹرس ڈال کر بوہرا برادری نے اپنے ٹھہرنے کا بندوبست کیا۔ اِس کے علاوہ صدر، شارع فیصل، کینٹ اسٹیشن اور دیگر مقامات پر بھی ہوٹلز اور ریسٹ ہاوسز میں ہاوس فل ہی رہا۔

جانیے: دو سڑکیں، پانچ نام

صدر کے اطراف میں موجود فلیٹس میں ایک ایک کمرہ دس دن کے کرائے پر حاصل کرنے کے لیے کئی کئی ہزار روپے کی پیشکش کی گئی اور لوگوں نے چند دن کے لیے اپنے فلیٹس بوہرا برادری کے حوالے کر دیے۔

ویسے تو عام طور پر بوہرا بھی ایام عزا میں خریداری سے گریز کرتے ہیں مگر شہر یا ملک سے باہر ہوں تو ضروریات یا سوغات کے لیے بازاروں کا رخ کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی حال شہر کی مارکیٹوں کا رہا۔ ایٹریم مال، زینب مارکیٹ، زیب النسا اسٹریٹ کے علاوہ ڈیفنس، کلفٹن اور حیدری مارکیٹ میں بوہرا برادری کا بھرپور رش رہا اور خریداری دیکھنے میں آئی۔

عبد الرحمان صدر میں رکشہ چلاتے ہیں۔ جب ان سے چائے کے ہوٹل پر ملاقات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ بوہرا افراد کے آنے سے کاروبار کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ طاہری مسجد کے پاس ہر وقت سواری ملتی ہے۔ اُنہوں نے شہر کے دیگر علاقوں میں رکشہ چلانے والے دوستوں کو بھی صدر بلا لیا تھا۔

اِن ساری باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے تو جو چند اچھی خبریں میسر آتی ہیں، اور وہ یہ کہ اب کراچی بدل رہا ہے۔ یہ اہم ترین عشرہ خیر و عافیت سے گزر گیا یہ ہم سب کے لیے باعث تشکر ہے۔

دوسری اہم ترین بات یہ کہ غیر ملکیوں کے لیے کراچی گزشتہ کئی سالوں سے خوف کی علامت بنا ہوا تھا، مگر اب بتدریج اِن خیالات میں تبدیلی آرہی ہے اور بوہرا برادری کے تاثرات سے یقیناً دنیا بھر میں شہرِ قائد کا مثبت چہرہ سامنے آئے گا۔

صرف یہی نہیں بلکہ دنیا کو یہ واضح پیغام بھی جائے گا کہ اب کراچی وہ کراچی نہیں رہا جہاں لوگوں کی زندگیاں محفوظ تصور نہیں کی جاتی تھی، بلکہ اب یہ وہ کراچی ہے جو غیر ملکیوں کو بھی خوف کے بجائے امن کا پیغام دیتا ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

riz Oct 02, 2017 01:22pm
good one,, really like to hear more on this big event karachi silently hosted,,
کامران سہیل Oct 03, 2017 05:55pm
بہترین لکھا ہے راجہ کامران بھائی آٌپ نے
hassanjawwad Oct 03, 2017 06:02pm
بہت خوب ،،، راجہ کامران نے ایک مر تبہ پھر بہت دلچسب انداز میں کراچی میں منائے جانے والے عشرہ مبارکہ کی منظر کشی کی ہے ،،،،دو دہائیوں بعد کراچی پاکستان مین ہونے والے بین الاقوامی سطح کے اس اجتماع سے دنیا بھر میں پاکستان کے حوالے سے موجود منفی تاثر میں کمی واقع ہو گی ۔
Farhad Khan Oct 03, 2017 09:26pm
bhai jan, Bohat khob or shaestsgi sy ap ne manzar kashi aor Bohra community se mutaliq malomat or Karachi k economic sortehal pr achi roshni dali hae, appreciated.