انتخابی اصلاحات کا بل سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی منظور ہوگیا جبکہ صدر مملکت ممنون حسین کے دستخط کے بعد اس نے باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرلی۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا جہاں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے انتخابی بل پیش کیا جس کی اپوزیشن جماعتوں نے مخالفت کی۔

خیال رہے کہ انتخابی اصلاحاتی بل سینیٹ سے گزشتہ ماہ منظور ہوا تھا جہاں اپوزیشن نے بل کی شق 203 پر ترمیم پیش کی تھی۔

انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔

حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی تھی۔

مزید پڑھیں:نواز شریف کے پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار

بل کی منظوری میں اپوزیشن جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی-ایم) نے اہم کردار ادا کیا اور ووٹنگ کے عمل میں اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیا تھا۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے انتخابی اصلاحاتی بل میں کسی بھی نااہل شخص کے سیاسی جماعت کے عہدیدار بننے سے بھی نااہلی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں تھی اسی لیے پی پی پی کے سینیٹر نے ترمیم پیش کی تھی۔

انتخابی بل شق 203 کے اہم نکات

انتخابی اصلاحاتی بل کی شق 203 میں کہا گیا ہے کہ ہر پاکستانی شہری کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت حاصل کرسکتا ہے۔

سیاسی جماعت کی رکنیت کے حوالے سے بل کے نکات یہ ہیں۔

1-ہر وہ شہری جو سرکاری ملازمت کا عہدہ نہیں رکھتا ہو وہ ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ سکتا ہے، دوسری صورت میں ایک سیاسی جماعت سے منسلک ہو سکے گا، سیاسی سرگرمیاں میں حصہ لے سکتا ہے اور ایک سیاسی جماعت کا عہدیدار بھی منتخب ہوسکتا ہے۔

2-جب ایک شہری سیاسی جماعت میں شمولیت کرے گا تو اس کا نام بطوررکن سیاسی جماعت کے ریکارڈ میں درج کیا جائے گا اور رکنیت کا کارڈ یا دیگر دستاویزات بھی جاری کی جائیں گی جس سے سیاسی جماعت کی رکنیت ظاہر ہوتی ہو۔

3-کوئی بھی شہری ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا رکن نہیں بن سکتا۔

4-سیاسی جماعت خواتن کو رکن بننے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔

5-سیاسی جماعت کا رکن پارٹی کے ریکارڈ تک رسائی کا حق رکھتا ہے ماسوائے دیگر اراکین کے ریکارڈ کے۔

یاد رہے کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر (پی پی او) 2002 میں درج تھا کہ ایسا کوئی شخص سیاسی جماعت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا جو رکن قومی اسمبلی نہیں یا پھر اسے آئین کے آرٹیکل 62-63 کے تحت نا اہل قرار دیا گیا ہو۔

قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی مخالفت

قبل ازیں قومی اسمبلی میں انتخابی بل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تمام فیصلے پارلیمنٹ میں ہی ہونے چاہئیں۔

انھوں ںے اپنے خطاب میں حکومت سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر اضافہ نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

بل کی شق 203 آئین سے متصادم ہے، شاہ محمود

پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے پوائنٹ آف آرڈر پر بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگرموجودہ حالت میں بل منظور ہوا توعدالت جائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ آج جو قانون سازی کے لیے جو بل سینیٹ سے قومی اسمبلی میں آیا ہے اس پر اراکین نے بہت محنت کی اور اس میں ہماری پارٹی پی ٹی آئی کا خون پسینہ شامل ہے۔

انھوں نے انتخابی اصلاحات کی جو کمیٹی بنی تھی اس کے پیچھے طویل جدوجہد تھی اور 126 دنوں کا دھرنا شامل تھا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ شق 203 جو آج اس بل میں شامل کیا جارہا ہے اور پہلی شق جو شامل تھی آرٹیکل 5 کی شق ون کو ختم کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ آئین کی روح سے متصادم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آئین واضح طور پر کہہ رہا کہ ایک شخصیت جو آرٹیکل 62، 63 پر پورا نہیں اترتی اس پر سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آچکا ہے کہ نواز شریف آرٹیکل 62 ون ایف کےتحت اہلیت نہیں رکھتے'۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نواز شریف کے لیے انفرادی طور پر ایک شق شامل کررہے ہیں جو آئین کی روح کے خلاف ہے اور ابھی وقت ہے کہ شق 203 کو نکالا جائے'۔

انھوں نے کہا کہ آپ کی اکثریت ہے اگرآپ یہ منظور کردیتے ہیں تو اس شق کو عدالت میں چیلنج کیا جائیں گے اور عین ممکن ہے کہ یہ غیرآئینی قرار دی جائے'۔

جماعت اسلامی کی شق میں ترمیم پیش

جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے قومی اسمبلی میں الیکشن بل میں ترامیم پیش کی۔

انھوں نے کہا کہ ہم سے شق 203 کے حوالے سے حقائق چھپائے گئے اور شق 203 سے متعلق حقائق چھپانا حکومت کی بددیانتی ہے۔

صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ہم کسی نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کی مذمت کرتے ہیں۔

انھوں نے خواتین کے 10 فیصد سے کم ووٹ کاسٹ ہونے پر الیکشن کالعدم قرار دینے کی بھی مخالفت کردی۔

بل پر بحث کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن نوید قمر نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ شق جس طرح خاموشی سے لائی گئی ہے میرے خیال میں کسی بھی جمہوری پارٹی کے لیے مناسب نہیں ہے۔

عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ مسلم لیگ نواز کو پارٹی کی سربراہی کے لیے بھائی پر اعتماد نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایک آدمی کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے جو جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے، کیا آپ کے پاس کوئی ایک بھی سربراہی کے لیے موجود نہیں ہے، کل اجمل پہاڑی آجائے گا اور کسی پارٹی کا سربراہ بن جائے گا۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ آج آئین سے ختم نبوت کو نکال دیا گیا ہے کہاں فضل الرحمٰن اور عطا اللہ بخاری کے ماننے والے کہاں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آئندہ ہونے والے انتخابات کی حرمت سے کھیلنے جارہے ہیں اور سپریم کورٹ پر گرینیڈ پھینک رہے ہیں۔

آفتاب خان شیرپاؤ نے کہا کہ ہم نےجس بات کو ٹھیک سمجھا اس کی حمایت کی اوراس بل کے لیے کوشش کی نظام بہتر ہو اور جو مسودہ تیار ہوا اور جہاں ترامیم کی تھیں وہ آگئی ہیں لیکن میں گمان میں نہیں تھا بہت سی چیزیں ترک کردی جائیں گی۔

پارٹی آئین میں بھی ترمیم

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باآسانی مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ صدر منتخب کرنے لیے پارٹی آئین میں ترمیم کردی گئی۔

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی جنرل کونسل نے پارٹی آئین میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے پارٹی آئین کی دفعہ 120 کو ختم کردیا۔

ترمیم کے بعد پارٹی عہدیدار کے لیے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترنے کی شق ختم ہوگئی، جبکہ اب سزا یافتہ شخص بھی پارٹی کا صدر یا کوئی بھی عہدہ رکھ سکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں