لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز اسلام آباد کی احتساب عدالت میں جو کچھ وزیر داخلہ احسن اقبال کے ساتھ ہوا، وہ کوئی نئی بات نہیں، گذشتہ 4 برس سے وزارت داخلہ اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے، تاہم ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آواز اٹھانے سے گریز کیا گیا۔

ن لیگ کے مطابق 2 اکتوبر کو پیش آنے والے واقعے، جب وزیر داخلہ احسن اقبال کو رینجرز نے احتساب عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں دی تھی، اور دیگر 'سامنے نہ آنے والے' واقعات میں فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ ملک میں کس کے احکامات چل رہے ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز وزیر داخلہ احسن اقبال نیب ریفرنسز کے سلسلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی دوسری پیشی کے موقع پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تھے، تاہم انہیں عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے اس حوالے سے کہا، 'سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی مسلم لیگ (ن) کے گذشتہ 4 سالوں کے دوران مختلف مواقعوں پر ایسی ہی صورتحال کا سامنا کیا، تاہم انہوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی، اب احسن اقبال کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ معاملہ سامنے آگیا کیونکہ کیمروں نے یہ مناظر قید کرلیے'۔

مزید پڑھیں: میں کٹھ پتلی وزیر داخلہ نہیں بن سکتا، احسن اقبال

ڈان سے بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے احسن اقبال کا موازنہ چوہدری نثار سے کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ وزیر داخلہ نے اس سلوک پر احتجاج کرتے ہوئے مستعفی ہونے کی دھمکی دی جبکہ سابق وزیر داخلہ نے اپنے دور میں کبھی بھی ان واقعات پر احتجاج کرنے کی جرات نہیں کی تھی۔

بلاگرز کی گمشدگی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ چوہدری نثار کو معلوم ہوا کہ اس طرح کے معاملات میں ان کے پاس کوئی اختیارات نہیں، لیکن انہوں نے کبھی احتجاج نہیں کیا۔

رانا ثناء کا خیال تھا کہ چوہدری نثار کبھی بھی ایک 'بااختیار وزیر' نہیں تھے۔

انہوں نے کہا، 'اگر وہ بااختیار ہوتے تو مسلم لیگ (ن) کو کبھی بھی ان معاملات کا سامنا نہ کرنا پڑتا، جس کا سامنا اسے آج ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری نثار اور وزیراعظم میں 'دوریاں'

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ اصل میں ملک کے اختیارات کس کے پاس ہیں۔

ان کا کہنا تھا، 'ہر ایک نے ملک میں سویلین حکومت کی نام نہاد بالادستی کا مشاہدہ کیا'، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) آئندہ اس قسم کے معاملات میں معذرت خواہانہ یا دفاعی طرز عمل نہیں اپنائے گی۔

وزیرقانون نے کہا، 'احسن اقبال کا استعفیٰ حل نہیں ہے، بجائے اس کے مسلم لیگ (ن) کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرکے اس میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنا چاہیے'۔

دوسری جانب رانا ثناء کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے چوہدری نثار کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ وہ ایک 'بااختیار وزیر' تھے اور کسی کو بھی بحیثیت وزیر داخلہ ان کے دور پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔

رانا ثناء کے ریمارکس سے شریف برادران کے قریبی لیگی رہنماؤں کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے، اگرچہ لندن سے واپسی پر نواز شریف نے کچھ معاملات کو حل کرنے کی غرض سے چوہدری نثار سے ملاقات کی تھی، تاہم چند لیگی رہنماؤں کے مطابق سابق وزیر داخلہ اب نواز شریف کے ساتھ نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: ’نواز شریف ۔ چوہدری نثار کے راستے ابھی جدا نہیں ہوئے‘

پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک لیگی رہنما کے مطابق، ' چوہدری نثار مسلم لیگ (ن) کے ناراض رکن ہیں، وہ لیگی قیادت پر تنقید جاری رکھیں گے خصوصاً سرگرم رہنماؤں پر، جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ شریف برادران کو یہاں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں، تاہم وہ پارٹی میں موجود رہیں گے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لیگی حکومت نے اندرونی چیلنجز سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور کسی کو اپنا اسکرپٹ لاگو کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔


یہ خبر 3 اکتوبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

israr Muhammad Khan Oct 04, 2017 02:03am
نیب عدالت میں رینجر کی تعیناتی ایک بہت بڑے سازش کی ابتداء تھی لیکن حکومت نے روک و دانش اور تحمل سے یہ کوشش ناکام بنادی رینجر کو کس نے بلایا یا کس کے آرڈر پر ائے تھے یہ بات اب راز کی بات نہیں رہی تھوڑی دیر کیلئے سوچئے کہ اگر اس وقت پولیس چیف اپنے سپاہیوں کو دوبارہ اپنی پوزیشن پر جانے کا کہہ دے دیتے تو کیا ھوتا یقیناﹰ جھڑپ کا خطرہ موجود رہتا اسلئے میں سمجھتا ھوں کہ حکومت نے خاموشی اختیار کرکے ایک طے شدہ سازش ناکام بنادی