بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں واقع درگاہ فتح پور شریف میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکار سمیت 19 افراد جاں بحق اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے۔

لیویز ذرائع کے مطابق دھماکا درگاہ کے اندر ہوا جس میں زخمی ہونے والے افراد کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال گنداوہ منتقل کیا گیا۔

دھماکا انتہائی زوردار تھا جس کی آواز میلوں دور تک سنائی دی، تاہم ابھی اس کی نوعیت معلوم نہیں ہوسکی۔

سیکیورٹی فورسز نے دھماکے کی جگہ کو گھیرے میں لے لیا جبکہ ریسکیو ٹیموں نے امدادی کاموں کا آغاز کردیا۔

جھل مگسی، جیکب آباد اور لاڑکانہ سے 3 گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔
جھل مگسی، جیکب آباد اور لاڑکانہ سے 3 گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔

درگاہ میں جمعرات کا روز ہونے کی وجہ سے معمول سے زیادہ لوگ موجود تھے جبکہ دھماکا درگاہ فتح پور شریف کے مرکزی دروازے پر دھمال کے وقت ہوا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

گنداوہ ہسپتال کی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر رخسانہ مگسی نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ہسپتال میں 15 لاشیں لائی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے میں زخمی ہونے والے 24 افراد کو بھی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال گنداوہ لایا گیا، جن میں سے 18 کو علاج کے لیے کوئٹہ اور لاڑکانہ منتقل کیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر جھل مگسی اسد اللہ کاکڑ نے کہا کہ درگاہ پر خودکش دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 19 ہوچکی ہے، جن میں ایک اسسٹنٹ سب انسپیکٹر (اے ایس آئی) اور 3 بچے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’خودکش حملہ آور نے پولیس کی جانب سے روکے جانے پر درگاہ کے دروازے پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس سے 26 افراد زخمی بھی ہوئے۔‘

وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خودکش حملہ آور نے درگاہ میں گھسنے کی کوشش کی، تاہم بہادر سیکیورٹی اہلکاروں نے حملہ آور کو درگاہ میں داخل ہونے سے روک کر بڑے نقصان سے بچایا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’دھماکا درگاہ کے اندر موجود میدان میں ہوا جس کے شدید زخمیوں کو کراچی کے ہسپتالوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔‘

یاد رہے کہ رواں سال فروری میں سہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت 70 افراد جاں بحق اور 150 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

دھماکا درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں اس وقت ہوا جب وہاں دھمال ڈالی جارہی تھی، جبکہ دھماکے کے بعد لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور درگاہ کے احاطے میں آگ لگ گئی۔

قبل ازیں نومبر 2016 میں بلوچستان کے ضلع خضدار میں درگاہ شاہ نورانی میں زور دار بم دھماکے کے نتیجے میں 52 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

دھماکے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔

واضح رہے کہ دھماکے سے کچھ وقت قبل ہی پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ ’پاکستان سے دہشت گردوں کا صفایا کردیا گیا ہے اور پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی منظم ٹھکانہ نہیں اور اس حوالے سے پاکستان نے جو کچھ کیا اس کی مثال دنیا میں نہیں۔‘

ان کہنا تھا کہ ’کوئی ملک ایسا نہیں جہاں دہشت گردی کے خطرات نہ ہوں، دشمن قوتیں پاکستان کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتیں لیکن پاکستانی عوام کو اعتماد اور فخر ہونا چاہیے کہ فوج نے ان تمام خطرات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔‘

ماضی میں درگاہوں پر ہونے والے حملے

ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ماضی میں بھی دہشت گردوں نے درگاہوں کو نشانہ بنایا ہے، امن دشمنوں نے کراچی کے عبداللہ شاہ غازی، لاہور کے داتا دربار اور ڈیرہ غازی خان کے دربار سخی سرور میں بھی زائرین کو نشانہ بنایا تھا۔

کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر اکتوبر 2010 میں ہونے والے دھماکوں میں 8 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

ڈیرہ غازی خان میں 2011 میں صوفی سخی سرور کے مزار پر خود کش حملے میں 50 افرادجاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

27 مئی 2005 میں اسلام آباد میں بری امام کے مزار پر خود کش بم حملے میں 18 افراد جاں بحق اور 86 زخمی ہوئے تھے۔

یکم جولائی 2010 میں داتا دربار پر 3 دھماکوں میں 35 سے زائد افراد جاں بحق اور 170 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

25 فروری 2013 کو شکارپور کی درگاہ غازی غلام شاہ میں ہونے والے دھماکے میں 3 افراد جاں بحق اور 24 زخمی ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں اضافہ ہوا ہے۔

25 اکتوبر 2016 کو بھاری ہتھیاروں اور خود کش جیکٹس سے لیس دہشت گردوں نے کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 61 اہلکار ہلاک اور 117 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک اور 112 سے زائد زخمی ہوئے تھے، ہلاک ہونے والوں میں ڈان نیوز کا کیمرہ مین بھی شامل تھا جبکہ اکثریت وکلا کی تھی جو بلوچستان بارکونسل کے صدر انور بلال کاسی کے قتل کی خبر سن کرہسپتال پہنچے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں