گلو بٹ زندگی کے نئے مقصد کی تلاش میں

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2017
جون 2014 میں گلو بٹ گاڑیوں کے شیشے تورٹے ہوئے—۔فائل  فوٹو/ عمران گبول
جون 2014 میں گلو بٹ گاڑیوں کے شیشے تورٹے ہوئے—۔فائل فوٹو/ عمران گبول

لاہور: جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں گاڑیوں کے شیشے توڑتا شاہد عزیز عرف گلو بٹ شاید لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو ہی رہا تھا کہ اس نے اپنی زندگی کا ایک نیا مقصد ڈھونڈ لیا اور اب گلو بٹ میانمار میں ظلم و ستم کا شکار روہنگیا مسلمانوں کی آواز بن کر سامنے آیا ہے۔

گلو بٹ کی جانب سے لگوائے گئے پوسٹرز—۔فوٹو/ ڈان
گلو بٹ کی جانب سے لگوائے گئے پوسٹرز—۔فوٹو/ ڈان

کوٹ لکھپت جیل سے اپنی رہائی کے کچھ ہی ماہ بعد گلو بٹ نے سماجی سرگرمیوں کے لیے لاہور کے فیصل ٹاؤن میں واقع کوٹھا پنڈ فلیٹس کے اطراف میں لوگوں سے رابطہ کیا اور 'برما کے مسلمانوں' سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بینرز بھی لگوائے۔

ان میں سے ایک بینر پر درج ہے، 'برما کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم اور قتل و غارت روکنے کے لیے گلو بٹ کا ساتھ دیں'۔

اور گلو بٹ نے صرف اس سلسلے میں الفاظ کا سہارا ہی نہیں لیا، بلکہ حال ہی میں انہوں نے میانمار کے مسلمانوں کی حمایت میں ایک احتجاجی مظاہرے کا بھی انعقاد کیا، لیکن اسے میڈیا اور عوام کی اتنی توجہ حاصل نہیں ہوئی، جو اُس کوریج سے بالکل متصادم ہے، جو گلو بٹ کو جون 2014 میں حاصل ہوئی تھی، جب ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے باہر وہ گاڑیوں پر ڈنڈے برساتا نظر آیا تھا۔

یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور میں پولیس نے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ سے رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی تھی اس دوران اہلکاروں اور عوامی تحریک کے کارکنوں میں تصادم ہوا تھا، اسی دوران گلو بٹ نے وہاں کھڑی گاڑیوں کے شیشے توڑنے شروع کر دیے تھے اور یہ تمام مناظر کیمروں کے ذریعے عوام تک پہنچتے رہے۔

جس کے بعد گلو بٹ کو گرفتار کرلیا گیا اور 30 اکتوبر 2014 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے انہیں 11 سال قید کی سزا سنائی۔

تاہم رواں برس فروری میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے گلو بٹ کے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرتے ہوئے اس کے تحت دی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم جاری کیا تھا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ گلو بٹ دیگر دفعات کے تحت اپنی سزا پوری کرچکا ہے۔

مزید پڑھیں: گلو بٹ کو کوٹ لکھپت جیل سے رہائی مل گئی

ظاہر سی بات ہے کہ گلو بٹ اپنے 'نئے کردار' کے حوالے سے میڈیا کی جانب سے نظر انداز کیے جانے پر خوش نہیں تھے، لیکن یہ واحد چیز نہیں ہے، جس کا انہیں سامنا ہے۔

گلو بٹ چاہتے ہیں کہ دنیا اس بات کا نوٹس لے کہ وہ اب ایک تبدیل شدہ انسان ہیں اور 'اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت' کے لیے تیار ہیں، لیکن گلو کے مطابق اس بات کے برعکس انہیں لوگوں کی دشمنی کا سامنا ہے، انہوں نے بتایا، 'گذشتہ ہفتے 30 سے 35 لوگوں نے ایک قریبی ریسٹورنٹ میں مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور مجھے دھمکیاں دیں'۔

ساتھ ہی انہوں نے خود میں آنے والی تبدیلی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، 'اگر میں پرانا والا گلو بٹ ہوتا تو میں انہیں اُسی طرح جواب دیتا'۔

گلو بٹ کا کہنا تھا کہ انہیں کئی ذرائع سے دھمکیوں کا سامنا ہے اور اس بات کے باوجود کہ وہ اپنی سزا پوری کرچکے ہیں، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو انہیں معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اُن 'دوستوں' کی جانب سے نشانہ بننے کے خدشات کا بھی اظہار کیا جو سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بوجھ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلوبٹ اوکسفرڈ ڈکشنری میں؟

گلو بٹ بحیثیت ایک سیکیورٹی گارڈ کام کرنا چاہتے ہیں، شاید کسی بینک یا اسکول میں، لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ ایک ایسے پرتشدد شخص کو سیکیورٹی گارڈ کے طور پر تعینات کرنے سے عوام پر کیا اثر پڑے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ گلو بٹ دیگر آئیڈیاز پر کام کرنے کے حوالے سے بھی تیار ہے۔

انہوں نے ڈان کو بتایا، 'میں اپنی ہینڈ رائٹنگ (لکھائی) بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ میں بیرون ملک کوئی ملازمت تلاش کرسکوں'، ساتھ ہی انہوں نے ایک کاغذ کا ٹکڑا بھی دکھایا جس پر وہ اپنے دستخط کی پریکٹس کررہے تھے۔

خاندانی گھر کے دروازے ان پر بند ہونے کے بعد گلو بٹ کے لیے نیا گھر تلاش کرنا ایک مشکل امر ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ اپنا زیادہ تر وقت کوٹھا پنڈ کے علاقے میں واقع اپنے دوست کے انٹرنیٹ کیفے پر گزارتے ہیں۔

گلو بٹ کے مطابق، انہیں ملنے والی 'بین الاقوامی شہرت' کے بعد ملک کے دور دراز علاقوں سے بھی لوگوں نے آکر ان کے ساتھ سیلفیز بنوائیں، لیکن ان کی مدد کے لیے کوئی آگے نہیں آتا۔


یہ رپورٹ 7 اکتوبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Oct 07, 2017 07:04pm
اس شخص کو واقعی مدد کی ضرورت ہے، یہ معاشرے کے کام آسکتا ہے، سیلفیز کے بجائے اس کی رہنمائی کی جائے۔ خیرخواہ