متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ایک اعلیٰ سیکیورٹی افسر کا کہنا ہے کہ اگر دوحہ 2022 کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی سے دستبردار ہوجائے تو اس صورت میں قطر کشیدگی ختم ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ کئی ماہ سے سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک اور قطر کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران پہلی مرتبہ دوحہ سے سفارتی تعلقات ختم کرنے والے ایک ملک نے اس مسئلے کے حل کو براہ راست فیفا ورلڈ کپ کے ایونٹ سے جوڑا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق دبئی کے سیکیورٹی افسر لیفٹننٹ جنرل ضاحی خلفان تميم نے، جو ٹوئٹر پر کچھ زیادہ سرگرم نہیں ہیں، گذشتہ رات فیفا ٹورنامنٹ کو اپنی ٹوئیٹ میں تنقید کا نشانہ بنایا۔

اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ورلڈ کپ قطر سے باہر چلا جائے تو قطر کشیدگی ختم ہوسکتی ہے کیونکہ کشیدگی کو اس کے خاتمے کے لیے ہی شروع کیا گیا تھا‘۔

مزید پڑھیں: فٹ بال ورلڈ کپ 2022 کی تاریخوں کا اعلان

انہوں نے قطر کے سابق امیر شیخ حامد بن خلیفہ الثانی اور سابق وزیر خارجہ حامد بن جاسم الثانی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’واپس آنے کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے جس کی منصوبہ بندی الحامدین کررہے ہیں‘۔

واضح رہے کہ بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دونوں سابق قطری رہنماؤں کا موجودہ حکومت میں اہم کردار موجود ہے۔

تاہم مذکورہ بیان پر قطری حکام کا رد عمل سامنے نہیں آیا۔

ضاحی خلفان تميم، جو اس سے قبل اسرائیل اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کی گئی ٹوئیٹ کے باعث تنازعات کا سامنا کرچکے ہیں، نے حال ہی میں کی گئی اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ قطر ہماری تشویش نہیں ہے اور بائیکاٹ کرنے والے ممالک کے میڈیا کو تجویز دی کہ وہ تنازع کو دوبارہ منظر عام پر لائیں۔

اس سے قبل جمعہ کے روز قطر میں موجود 2022 فیفا ٹورنامنٹ کے سربراہ نے بتایا تھا کہ قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کے اثرات یہاں ہونے والے ورلڈ کپ ایونٹ کو متاثر نہیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب سمیت 6 ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیئے

قطر ورلڈ کپ سپریم کمیٹی کے سیکریٹری جنرل حسن الثانی نے کہا تھا کہ ’ہوسکتا ہے متبادل سپلائی کے لیے کچھ وقت درکار ہو لیکن اس حوالے سے پیش رفت جاری ہے جو جلد رسد کو معمول پر لے آئے گی‘۔

یاد رہے کہ قطر کو 2022 کے عالمی کپ کی میزبانی 2010 میں عطا کی گئی تھی جب کہ سے قبل ایک ورلڈ کپ 2018 میں منعقد ہوگا جس کی میزبانی روس کرے گا۔

ستمبر 2015 میں فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے قطر میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ 2022 کی حتمی تاریخوں کو اعلان کیا تھا۔

خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی

رواں سال جون کے آغاز میں سعودی عرب، مصر، بحرین، یمن، متحدہ عرب امارات اور مالدیپ نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

اس کے علاوہ لیبیا کی مشرقی حکومت کے وزیر خارجہ محمد دیری نے اپنے ایک بیان میں قطر سے تعلقات کے خاتمے کا اعلان کیا، تاہم انھوں نے فوری طور پر اس اقدام کی کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔

سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کیے جانے کے بعد پاکستان نے دوحہ سے تعلقات بحال رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔

مزید پڑھیں: قطر کشیدگی: ’بائیکاٹ اور پابندیاں جاری‘

تاہم دہشت گردوں کی حمایت یا تعلق کے ان الزامات کو قطر حکومت نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 1991 میں امریکی اتحاد کی عراق کے خلاف جنگ کے دوران بھی ایسی ہی سیاسی کشیدگی پیدا ہوئی تھی اس موقع پر قطر نے 10 ہزار امریکی فوجیوں کو اپنے ملک میں قیام کی اجازت دی اور امریکی بیس بنائے گئے، جس پر متعدد عرب ریاستیں قطر کے خلاف ہوگئی تھیں، اس دوران متعدد عرب ممالک نے اپنی ایئر لائنز کو قطر کے لیے معطل کردیا تھا اور قطر سے ہر قسم کے سفارتی اور سرحدی تعلقات منقطع کردیے گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں