واشنگٹن: پاکستان نے افغان جنگ کے جلد خاتمے اور خطے میں امن کی بحالی پر بات چیت کے لیے چار فریقی تعاون گروپ (کیو سی جی) کا اجلاس رواں ماہ 16 اکتوبر کو عمان کے دار الحکومت مسقط میں طلب کر لیا۔

افغانستان میں امن و استحکام کو بحال کرنے کے لیے پاکستان، امریکا، چین اور افغانستان پر مشتمل چار فریقی گروپ کا پہلا اجلاس گذشتہ برس جنوری میں منعقد کیا گیا تھا تاہم اب تک اس کے 5 اجلاس منعقد ہو چکے ہیں جبکہ آخری مرتبہ اس گروپ کا اجلاس پاکستان میں مری کے مقام پر مئی 2016 میں منعقد کیا گیا تھا۔

وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے اپنے حالیہ دورہ امریکا کے دوران واشنگٹن میں موجود وائس آف امریکا (وی او اے) اردو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسقط میں منعقدہ اجلاس میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے گا جبکہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش بھی کی جائے گی۔

خواجہ محمد آصف نے افغان طالبان پر پاکستان کے اثرورسوخ کو ایک گمان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت طالبان پر پاکستان سے زیادہ روس کا اثر موجود ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان، افغانستان میں بھارت کے کردار کو تسلیم نہیں کرتا: دفتر خارجہ

چار ملکی تعاون گروپ کے ذریعے امن عمل ابتدا سے ہی تنازعات کا شکار رہا جس میں طالبان نے اس گروپ کے اجلاس میں افغان حکومت جیسی حیثیت ملنے تک شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا تاہم جب انہیں اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے قائل کیا گیا تو کابل اور اسلام آباد کے تعلقات کی صورتحال کشیدہ ہوگئی۔

ابتدائی چار اجلاسوں کے دوران افغان امن عمل کے لیے کام کرنے میں کچھ پیش رفت نظر آئی اور اس گروپ میں چین کی شمولیت حوصلہ افزا تھی کیونکہ پاکستان اور افغانستان دونوں نے ہی اپنی تلخی بھلاتے ہوئے چین کو اس گروپ میں خوش آمدید کہا۔

چین کی کیو سی جی میں شمولیت سے پاکستان کو افغانستان میں بھارت کی بڑھتی ہوئی مداخلت پر اپنے خدشات کا جواب ملنے کی امید نظر آنے لگی۔

دوسری جانب افغان حکومت کو بھی یہ امید تھی کہ پاکستان اور چین کے دیرینہ تعلقات کابل اور اسلام آباد کے تعلقات کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف کا بیان پاکستان کی سلامتی کیلئے دھچکا: عمران خان

عالمی برادری کی جانب سے اس چار فریقی گروپ کے درمیان افغان امن عمل کے حوالے سے کی جانے والی بات چیت کو خوش آمدید کہا گیا کیونکہ یہ چاروں ممالک ہی افغانستان میں امن بحال کرنے کے عمل میں مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔

تاہم گروپ کے پانچویں سیشن کے دوران افغان حکام کی جانب سے یہ خبر لیک کی گئی تھی کہ طالبان سربراہ ملا عمر 2013 میں کراچی میں انتقال کر چکے ہیں لیکن پاکستان اس خبر کو اس لیے چھپا رہا ہے کیونکہ اسے طالبان پر سے اپنے اثرو رسوخ کے خاتمے کا ڈر ہے۔

اس خبر کے سامنے آنے کے بعد افغان امن عمل کا سلسلہ متاثر ہوا اور گروپ ممبران نے مشاورت کے لیے واپس اپنے اپنے ملک جانے کا فیصلہ کیا جبکہ 21 مئی 2016 کو امریکی ڈرون اسٹرائیک کے نتیجے میں طالبان لیڈر ملا منصور کی ہلاکت کے بعد امن عمل مزید متاثر ہوگیا اور اس حوالے سے بات چیت التوا کا شکار ہوگئی۔

اس واقعے کے بعد سے پاکستان نے چار ملکی تعاون گروپ کو دوبارہ فعال کرنے کی کوششیں کیں لیکن کوئی بھی ملک دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

اپنے تحفظات کے باوجود کیو سی جی گروپ کے تمام رکن ممالک افغانستان میں امن بحال کرنے کے خواہاں ہیں تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ تمام ممالک مسقط میں ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔


یہ خبر 10 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں