کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت کے دوران متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما رؤف صدیقی کو 4 نومبر کی آئندہ سماعت پر پیش ہونے کی ہدایت کردی۔

واضح رہے کہ عدالت نے فیکٹری مالکان کی جانب سے اس کی دوبارہ حوالگی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا فیکٹری حوالے نہیں کی جاسکتی.

رینجرز پراسیکیوٹر ساجد محبوب شیخ نے فیکٹری حوالگی سے متعلق درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ایسا کرنا شواہد کو مٹا دینے کے مترادف ہوگا۔

یہ پڑھیں : رینجرز رپورٹ: سانحہ بلدیہ ٹاﺅن میں ایم کیو ایم ملوث قرار

اس سے قبل کیس کی ہونے والی سماعت میں ساجد محبوب شیخ نے فاضل عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ پولیس نے ملزم (رؤف صدیقی) کی جانب سے ثبوت کی عدم فراہمی پر چارج شیٹ جاری نہیں کی تاہم ایسے تمام اہم اور موثر شواہد موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ ملزم سانحہ بلدیہ فیکٹری کا اصل محرک تھے۔

عدالت میں پیش کی جانے والی چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ عبدالرحٰمن عرف بھولا نے دوران تفتیش اور بعد ازاں مجسٹریٹ کے سامنے اقرار کیا تھا کہ اس نے زبیر عرف چریا کے ہمراہ ایم کیو ایم کے رہنما حماد صدیق کے کہنے پر فیکٹری کو آگ لگائی کیوں کہ فیکٹری مالکان نے بھتہ دینے سے انکار کردیا تھا۔

یاد رہے کہ عبدالرحٰمن عرف بھولا کو انٹرپول کی مدد سے بنکاک سے گرفتار کرکے پاکستان منتقل کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں سیاسی جماعت کا گروہ ملوث

ملزم کا کہنا تھا کہ رؤف صدیقی نے حادثے کے بعد فیکٹری ملکان کے خلاف مبینہ کیس درج کرایا۔

رپورٹ میں ملزم نے مزید اعتراف کیا کہ رؤف صدیقی اور حماد صدیقی نے کیس کا رخ تبدیل کرنے کے لیے فیکٹری ملکان سے 5 کروڑ وصول کیے۔

واضح رہے کہ ستمبر 2012 میں بلدیہ ٹاؤن کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں ہونے والی آتشزدگی کے نتیجے میں 250 مزدور جابحق ہو گئے تھے۔

ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف رینجرز کی درخواست

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں دہشت گردوں کو پناہ دینے اور علاج معالجے کی فراہمی سے متعلق کیس میں رینجرز کی جانب سے جے آئی ٹی کو مقدمے کا حصہ بنانے کی درخواست پر فیصلہ 30 اکتوبر تک کے لیے محفوظ کرلیا۔

رینجرز نے فاضل عدالت سے درخواست کی کہ ہوم ڈپارمنٹ سندھ سے ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ منگوائی جائے اور اسے سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم سمیت چھ دیگر سیاستدانوں کے خلاف جاری مقدمے کا حصہ بنایا جائے۔

رینجرز کے وکیل ساجد محبوب شیخ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جسے محکمہ داخلہ نے بھی چینلج نہیں کیا۔

یہ پڑھیں : ڈاکٹر عاصم کیس: وسیم اختر کے وارنٹ گرفتاری جاری

دوسری طرف وکیل صفائی عامر رضا نقوی، شوکت حیات اور دیگر نے دلائل پیش کیے کہ مذکورہ درخواست صرف پراسیکیوٹر ہی پیش کر سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ قانون کی نظر میں مشکوک ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔

وکیل صفائی نے مزید کہا کہ چارج شیٹ میں جے آئی ٹی کے کسی رکن کا نام شامل نہیں اس لیے اسے مقدمے کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر عاصم کیس: مفرور ملزمان کے وارنٹ پھر جاری

اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر ایاز نے درخواست کی مخالفت نہیں کی۔

فاضل عدالت نے سماعت کے بعد درخواست پر فیصلہ 30 اکتوبر تک کے لیے محفوظ کرلیا۔

واضح رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین پر الزام ہے کہ انہوں نے کراچی میئر وسیم اختر، پارک سرزمین پارٹی کے صدر انیس قائم خانی، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رؤف صدیقی، پیپلزپارٹی کے رہنما قادر پٹیل، سابق ایم کیو ایم لیڈر سلیم شہزاد اور پاکستان کے لیڈر عثمان معظم کے حکم پر دہشت گردوں کو پناہ دی اور علاج معالجے کی سہولت فراہم کی۔


یہ خبر 15 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں