طالبان نے حال ہی میں بازیاب ہونے والے کینیڈا کے شہری جوشوا بوائل کی جانب سے حراست کے دوران ان کی اہلیہ کے ساتھ ریپ کرنے اور ایک بچی کو ہلاک کرنے کے لگائے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

غیرملکی خبرایجنسی اے ایف پی کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ بوائل اور کیٹلان کولمین کو حراست کے دوران کبھی بھی الگ نہیں رکھا گیا، 'حقیقت یہ ہے کہ مجاہدین کسی شک پر مداخلت کرنا نہیں چاہتے لیکن انھوں نے خود اعتراف کیا تھا کہ ایک بچہ مرگیا ہے'۔

ذبیح اللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ 'حراست کے دوران ایک واقعہ پیش آیا تھا جب خاتون بیمار ہوئی تھیں، وہ علاقہ دور دراز تھا اور کوئی ڈاکٹر موجود نہیں تھا، تشویش ناک صورت حال کے باعث خاتون کی بچی کی موت ہوئی تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میڈیا میں چلنے والے الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ اب ہمارے دشمن کے ہاتھوں میں ہیں'۔

واضح رہے کہ جوشوا بوائل اور ان کی امریکی نژاد بیگم کیٹلان کولمین کوطالبان نے 2012 میں افغانستان سے اغوا کیا تھا اورجوڑے کے ہاں حراست کے دوران تین بچوں کی پیدائش ہوئی تھی جنھیں پاک فوج نے امریکی خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے بازیاب کرایا تھا۔

مغوی خاندان بازیابی کے بعد اب واپس کینیڈا پہنچ چکا ہے۔

مزید پڑھیں:کینیڈین جوڑے کی پانچ سالہ قید کا ڈرامائی اختتام

ٹورنٹو پہنچنے کے بعد بوائل نے طالبان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حراست کے دوران ان کی نومولود بچی کو مارا گیا اور ان کی بیگم کے ساتھ جنسی زیادتی کی تاہم طالبان نے اس کو 'جھوٹ' قرار دے دیا۔

بوائل نے اپنے بیان میں اپنی بچی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کی 'احمقانہ اور ظلم کی سرپرستی کے نتیجے میں میری نومولود بچی کو مار دیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حقانی نیٹ ورک کی جانب سے مجھے ایک پیش کش کو قبول کرنے کی تکرار کے باوجود انکار پر انتقام کے طور پر میری بیگم سے جنسی زیادتی کی'۔

خیال رہے کہ حقانی گروپ کے سربراہ سراج الدین حقانی بھی افغان طالبان کے نائب لیڈر ہیں۔

تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کی ہلاکت اور بیگم کے ساتھ زیادتی کا واقعہ 2014 میں پیش آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:’ریسکیو آپریشن میں پاکستان کی مدد کو امریکا کبھی نہیں بھولے گا‘

بوائل کا کہنا تھا کہ انھیں جنگ ذدہ ملک افغانستان میں طالبان کے زیرکنٹرول دور دراز علاقے میں اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ 'زائرین' کے طور پر گاؤں کے غریبوں کی مدد کرررہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں