لاہور: حکومت پنجاب نے ترکی کے شہری اور پاک-ترک اسکولز اور کالجز سسٹم کے سابق نائب صدر میسوت کاجماز کو ان کی اہلیہ اور بیٹیوں سمیت ملک بدر کردیا۔

واضح رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 27 ستمبر کو میسوت کاجماز سمیت انکی اہلیہ اور دو بیٹیوں فاطمہ ہما اور 17 سالہ ہدہ نورکو واپڈا ٹاؤن سے تحویل میں لیا تھا۔

واضح رہے کہ مذکورہ فیملی کے عزیزو اقارب نے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی جس کے بعد عدالت نے ترک فیملی کو ملک بدر کرنے سے متعلق حکم امتناع جاری کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیا جائے۔

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں بروز پیر (آج) اس ضمن میں سماعت کی تاریخ بھی مقرر تھی۔

یہ پڑھیں : پاک-ترک اسکول سسٹم کے سابق نائب صدر اہلِ خانہ سمیت 'اغوا'

پاکستان میں رہائش پذیر ترک خاندان کو اقوام متحدہ ہائی کمیشن برائے پناہ گزین کی جانب سے سیاسی پناہ کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا گیا تھا جس کی معیاد 24 نومبر 2017 تک تھی۔

پاک-ترک اسکول کے سابق ریجنل ڈائریکٹر اورہان نے ڈان کو بتایا کہ میسوت کاجماز کی بیٹی نے انہیں کراچی سے بذریعہ ٹیلی فون اطلاع دی کہ ان کے والدین کو 14 اکتوبر کو اسلام آباد سے ملک بدر کردیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ فیملی کو اسلام آباد ہوائی اڈے پر ترکش پولیس کے حوالے کیا گیا جو خصوصی طیارے سے پاکستان پہنچے تھے۔

اورہان نے بتایا کہ میسوت کاجماز کی بیٹی کراچی سے ترکی روانہ ہوچکی ہیں جو ترکی میں اپنے دادا اور دادی کے ہمراہ رہیں گی۔

یہ بھی پڑھیں : پاک-ترک اسکولوں کا عدالت سے رجوع

ان کا کہنا تھا کہ ایسے دیگر شواہد بھی موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ فیملی کو ترکی بھیج دیا گیا ہے۔

پاک-ترک اسکول کے سابق پرنسپل محمت علی سرکاری نے تصدیق کی کہ میسوت کاجماز کو خاندان سمیت ملک بدر کردیا گیا ہے جس کی اطلاع انہیں میسوت کاجماز کی بیٹی ہما نے دی۔

اورہان نے ترک فیملی کو ملک بدر کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں یقین نہیں آرہا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کے باجوود ایسا اقدام اٹھایا گیا‘۔

واضح رہے کہ اس ضمن میں تاحال حکومتِ پاکستان کی جانب سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس ترک صدر طیب اردگان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک حکومت کی درخواست پر پاکستانی حکومت نے فتح اللہ گولن کی تحریک سے منسلک پاک ترک انٹرنیشنل اسکولز اور کالجز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں : ترک عملے کی بے دخلی، والدین اور طلبہ پریشان

اس واقعے کے وقت پاکستان میں 32 پاک-ترک اسکولز اور کالجز موجود تھے اور ان تمام اسکولز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم مقامی این جی اوز نے مذکورہ اسکولز اور کالجز کے امور سنبھال لیے۔

پاک-ترک اسکولز اور کالجز میں 115 ترک شہری مختلف عہدوں پر فائز تھے اور ان اداروں میں 11 ہزار طلب علم تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہے تھے۔

واضح رہے کہ اب تک تقریباً 30 ترک خاندانوں کو ملک بدر کیا جاچکا ہے جبکہ تاحال 70 کے لگ بھلگ سیاسی پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔


یہ خبر 16 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں