جب ایک ماں اپنا خون نچوڑ کر بچے کو جنم دیتی ہے تو ننھے وجود پر پڑنے والی پہلی نظر ہی اُسے تمام تکالیف سے آزاد کردیتی ہے۔ پھر ماں کے انگ انگ سے محبت کے دریا پھوٹ پڑتے ہیں اور بچہ اُس آفاقی محبت کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے لگتا ہے۔

کچھ عرصے بعد جب ماں کو معلوم پڑتا ہے کہ میرے بچے کی بصارت ماں کے ممتا بھرے چہرے کا عکس دیکھنے سے قاصر ہے، اُس کی میٹھی لوریاں بچے کی سماعتوں سے ٹکرا کر نامراد لوٹ آتی ہیں، اُس کے جذبات اور اظہار کے درمیان ناقابلِ علاج معذوریاں حائل ہیں تو وہ کس دردناک کرب سے گزرتی ہے، یہ ماں جانتی ہے یا اُس کا خدا۔ بچہ بڑا ہوتا ہے تو اُسے پتا چلتا ہے کہ اُس کے ارد گرد دو ہی چیزوں کا راج ہے؛ مکمل تاریکی اور گہری خاموشی۔ اِس کے اندر کئی بے چین سوال کروٹیں لیتے ہیں لیکن گویائی ساتھ نہیں دیتی اور وہ خاموش اندھیرے میں کہیں گھٹ کر رہ جاتے ہیں۔

یہ بچہ ذرا سمجھ بوجھ پکڑتا ہے تو معذوری کے باوجود والدین کو بچے کی تعلیم کا خیال آتا ہے لہذا وہ اُسے خصوصی بچوں کے اسکول میں داخل کروا دیتے ہیں جہاں بچہ کلّی طور پر اسٹاف کے رحم و کرم پر ہوتا ہے جو اُس کے ساتھ من چاہا سلوک کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ والدین اِس حقیقت کو جانتے ہیں اِس لیے ڈرتے ڈرتے اپنے جگر گوشوں کو اسٹاف کے حوالے کرتے ہیں۔

جب ایسے ہی ایک معصوم بچے کو اُلٹا لٹکانے، تھپڑ مارنے اور زدوکوب کرنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ ملزمان کے خلاف محکمانہ و قانونی کارروائی سے قطع نظر میں گھنٹوں سوچتا رہا کہ ظالموں نے ایسا کیوں کیا؟

درحقیقت یہ وہی نفسیاتی رویہ ہے جس میں طاقتور کسی بے بس کی بے بسی سے لطف اندوز ہوتا ہے کیونکہ اُسے طاقتور ہونے کا احساس تبھی ہوتا ہے جب کوئی بے بس اُس کی مقتدر حیثیت کے سامنے بے یارو مددگار تڑپ رہا ہو۔ طاقتور ہونے کا یہ احساس اِس قدر نشہ آور ہوتا ہے کہ انسان اس کی خاطر ازل سے ایمان بیچتا، مال چھینتا، کھوپڑیاں اُڑاتا اور نسلیں اُجاڑتا آیا ہے۔

اُمید ہے کہ اِس واقعہ میں ملوث ملزمان کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے اور شاید کبھی حکومت اِس بات کو بھی یقینی بنانے میں کامیاب ہوجائے کہ پورے ملک میں زیرِ تعلیم خصوصی بچوں کے ساتھ آئندہ ایسا ناروا سلوک نہیں ہوگا۔ اگرچہ میڈیا پر اِس واقعہ کا قانونی پہلو زیادہ نمایاں کیا جارہا ہے جس کے مطابق کارروائی شروع ہوچکی ہے اور ملزمان زیرِ حراست ہیں لیکن دراصل یہ واقعہ قانونی سے زیادہ ایک انسانی و اخلاقی مسئلہ ہے۔ اِس حوالے سے ایک اہم سوال لے کر ہم آگے چلتے ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں طاقتور کو کمزور پر ظلم ڈھانے سے کیسے روکنا ہے؟

طاقت کیا ہے؟ طاقت کے کئی روپ ہیں

مسلح و تربیت یافتہ منظم افرادی قوت، ہزاروں کی تعداد میں معتقدین و پیروکاروں و جانثاروں کی منتشر فوج، بے پناہ علم، وسیع اختیارات، عالمگیر شہرت، بے عیب حسن و جمال اور متاثر کن صلاحیت؛ یہ سب طاقت کے مختلف مظاہر ہیں۔ حتٰی کہ بسااوقات اچانک میسر آجانے والا کوئی موقع بھی جز وقتی طاقت بن جاتا ہے۔

طاقتور جس روپ میں بھی ہو، ہر صورت میں اپنی طاقت لامحدود حد تک بڑھا لینا چاہتا ہے کیونکہ یہ وہ نشہ ہے جو کبھی پورا نہیں ہوتا خواہ انسان خدائی کا دعویٰ ہی کیوں نہ کرلے۔ اپنی اِسی بے لگام توسیع پسندانہ خواہش کے باعث وہ کمزور پر ظلم ڈھاتا ہے، اِس کے حقوق سلب کرلیتا ہے، سازش کرتا ہے، استحصال کرتا ہے۔

طاقتور اپنے مقاصد کی خاطر آپس میں گٹھ جوڑ بھی کرلیتے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ طاقتوروں کے اتحاد کبھی دیر پا ثابت نہیں ہوئے کیونکہ سب سے زیادہ طاقتور ہونے کی خواہش جلد یا بدیر اُنہیں باہم برسرِ پیکار کردیتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ یہ ہے طاقت کا وہ گھناؤنا کھیل جس میں آج عالمی قوتیں بھی جل رہی ہیں اور ہماری ارضِ پاک پر طاقت کے تمام مراکز بھی۔

چونکہ ہر معاشرے میں طاقتور اور کمزور طبقات بیک وقت موجود ہوتے ہیں اِس لیے کمزور کو طاقتور کے ظلم سے بچانے کے لیے تین چیزیں درکار ہیں جو مہیا کرنا ریاست کے تین اہم ستونوں کا کام ہے۔

اول: ’ہر شعبے کے لیے جامع قانون سازی‘ (یہ مقننہ یا قانون ساز ادارہ یعنی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے)

دوم: ’قانون کی روشنی میں غیر جانبدارانہ فیصلے‘ (یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے)

سوم: ’فیصلوں پر مکمل عملدرآمد‘ (یہ انتظامیہ یعنی پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے)

بدقسمتی سے ہمارے ہاں تینوں ریاستی ستون بُری طرح لرز رہے ہیں اور عوام انصاف کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ یہاں ہر طرح کا ظلم رائج ہوچکا ہے، بد عنوانی قوم کی رگ و پے میں سرائیت کرچکی ہے، طاقتور کمزور کے خون کا آخری قطرہ بھی چوس لینا چاہتا ہے اور کمزور کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں جہاں وہ اپنی داد رسی کے لیے جاسکے۔

  • کمزور عدالت کے دروازے تک پہنچنا چاہے تو اُس کے پاس کیس لڑنے کیلئے سرمایہ نہیں۔

  • سرمایہ ہو تو عدالت میں گواہوں کا تحفظ نہیں۔

  • قانون میں اتنے سقم ہیں کہ ملزم کو سزا دینا نہایت مشکل ہے اور اِسی وجہ سے فوجی عدالتیں بنانا پڑیں۔

  • قانون نافذ کرنے والے اکثر ادارے کرپشن کی زد میں ہیں۔

  • یہ معاشرہ مکمل طور پر طاقتور کا معاشرہ بن چکا ہے اور کمزور کی کمزوری آج اِسے سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ وہ پیدا ہی کیوں ہوا؟

آپ کہہ سکتے ہیں کہ حالات اب اِتنے بھی بُرے نہیں جس قدر مبالغہ آمیزی سے پیش کیے جا رہے ہیں لیکن آپ کو حقیقت اُس وقت سمجھ میں آئے گی

  • جب آپ ایک غریب مزدور کو پولیس کے ہتھے چڑھا دیکھیں گے،

  • جب آپ قیدیوں والی گاڑی کی جالیوں سے جھانکتی آنکھوں میں جھانکیں گے،

  • جب آپ کی زمین پر علاقے کا بااثر شخص قبضہ کرلے گا،

  • جب آپ کا بیٹا راتوں رات کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جائے گا اور آپ کو سالہا سال اُس کی خبر نہیں ملے گی،

  • جب آپ کی جائز ترقی روک لی جائے گی،

  • جب آپ کمزور ہوں گے اور طاقتور کے ہاتھوں میں مرغ بسمل کی مانند تڑپ رہے ہوں گے اور پاس کھڑا نظام بے بسی سے ہاتھ مل رہا ہوگا، تب آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ نظام کس حد تک کمزور کی مدد کرسکتا ہے اور تب آپ کو معلوم ہوگا کہ حالات کتنے بُرے ہیں۔

  • جب قانون ساز اداروں میں بیٹھے قانون ساز بغیر قانون پڑھے لیڈر کے اشارہِ ابرو پر قانون کے حق یا مخالفت میں ووٹ دیں گے،

  • جب قانون ساز ادارے فرد واحد کے حقیر مفاد کو سامنے رکھ کر قانون سازی کریں گے،

  • جب قانون ساز قانون پر کام کرنے کی بجائے ڈویلپمنٹ فنڈ لے کر سڑکیں اور پل بنوائیں گے تو جامع قانون کیسے بنے گا؟

  • جب عدالتیں فوجی آمروں کے کہنے پر بیگناہ لیڈروں کو پھانسیاں دیں گی،

  • جب عدالتیں آمروں کی گود میں بیٹھ کر ڈوگر کورٹس کہلائیں گی،

  • جب عدالتیں نظریہ ضرورت جیسی بدنام زمانہ اصطلاح کو خاموشی سے نافذ کردیں گی،

  • پھر جو کل خود عدالتیں خریدتے تھے وہ آج عدالتوں کے فیصلے کیوں نہ قدموں تلے روندیں؟

  • وہ کیوں نہ کہیں کہ عدالتی فیصلے آسمانی صحیفے نہیں ہوتے؟

  • کیا ماضی میں فوجی عدالتوں کا قیام ہمارے موجودہ عدالتی نظام اور قوانین کی جامعیت پر ایک سوالیہ نشان نہیں؟

  • جب انتظامی مشینری ملزم کو اُس کی حیثیت کے مطابق ڈیل کرے گی،

  • طاقتور کو سرکاری پروٹوکول سے عدالت میں پیش کیا جائے گا اور کمزور کو ہتھکڑیاں لگا کر،

  • جب عوام سائیکل و موبائل چور کو پکڑ کر اُسے گنجا کردیں، اُسے ٹھڈے گھونسے لاتیں ماریں، اُسے سڑک پر گھسیٹیں، اُس کی بھنویں مونڈ دیں، اُسے گالیاں بکیں، یہ سب کچھ کرکے اُسے پولیس کے حوالے کردیں لیکن اربوں کی کرپشن کے ملزمان کو ووٹ دے کر عزت سے پارلیمنٹ میں بٹھائیں تو پھر ایسی عوام کا کیا مقدر ہوگا؟

یہاں سوال آتا ہے تعلیم اور شعور کا۔ اگر عوام کی بڑی اکثریت زیورِ تعلیم سے آراستہ و باشعور ہوگی تو پھر ووٹ کے ذریعے تبدیلی ممکن ہے۔

جب ریاست کے تینوں ستون مل کر کمزور کا استحصال نہ روک سکیں اور ظالم کے پنجہءِ استبداد کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کرسکیں تو نظام زیادہ دیر نہیں چلا کرتے۔

کیونکہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔ یہ اِس لیے ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو کمزور خودبخود وحدت بنا کر طاقتور کو زیر کر لیتے ہیں۔ پھر اِس عمل کی کوکھ سے خونی انقلاب جنم لیتا ہے جس میں طاقتوروں کے سر اچھلتے ہیں، خونِ غاصب ارزاں ہوکر گلیوں میں بہتا ہے اور کمزور طاقتوروں کے سروں سے فٹبال کھیلتے ہیں۔

کیا پاکستان ایسی صورتحال کا متحمل ہوسکتا ہے؟

ہرگز نہیں۔ پاکستان کے داخلی و خارجی حالات قطعاً اِس کی اجازت نہیں دیتے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے، افغانستان میں امریکہ نواز حکومت مسلسل ہمارے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے جہاں داعش کی صورت میں ایک نیا فتنہ پورے خطے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ ایران سے ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، ملکی معیشت زوال پذیر ہے، سیاسی و عسکری اداروں کے تعلقات میں شدید تناؤ ہے، عالمی طاقتیں ہماری ایٹمی صلاحیت کے درپے ہیں۔ لیکن ہماری بد نصیبی دیکھئے کہ ہمارے ملک کے مقتدر حلقے تمام خطرات سے بے نیاز ہوکر طاقت طاقت کھیل رہے ہیں۔

آج پاکستان میں نظامِ عدل اور طاقتور طبقات کے درمیان ایک تاریخی اور فیصلہ کن جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اگر اِس جنگ میں نظام عدل جیت گیا تو ہماری اگلی نسلوں کو ایک صحتمند اور ترقی یافتہ پاکستان ملے گا جسے ترقی یافتہ بنانے میں وہ اپنی محنت اور صلاحیتیں کھپا سکیں گے۔ لیکن اگر طاقتور طبقات نظام عدل پر حاوی ہوگئے تو کمزور طبقات یونہی پستے رہیں گے اور حالات کچھ بھی رخ اختیار کرسکتے ہیں۔

قانون ساز اداروں سے گزارش ہے کہ وہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ملک و قوم کے مستقبل کی فکر کریں اور جامع قانون سازی پر توجہ دیں۔ آپ کے اقتدار کو دوام خود بخود مل جائے گا۔

عدلیہ سے گزارش ہے کہ وہ حق اور انصاف کا بول بالا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھے کہ موجودہ حالات میں 21 کروڑ عوام کی پُراُمید نگاہیں آپ پر ہی لگی ہیں۔

انتظامی اداروں سے گزارش ہے کہ قانون کا نفاذ ہر پاکستانی کے لیے یکساں کریں کہ آپ بھی اُسی نبی کے امتی ہیں جنہوں نے سب کے لیے ایک جیسے قانون کی ہدایت کی تھی۔

عوام سے التماس ہے کہ وہ برادری، ذات پات اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوجائیں اور میرٹ پر اُن لوگوں کو ووٹ دیں جنہوں نے پاکستان کے ریاستی اداروں (مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ) کو مضبوط کیا یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جنہوں نے قانون کو عملاً سب کے لیے برابر کردیا یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔

یاد رکھیں اگر معاشرے سے ظلم مٹ گیا اور ظالم کو یقین آگیا کہ میں ظلم کرکے گرفت سے کسی صورت نہیں بچ سکتا تو ترقی ہمارے گھر کی باندی ہوگی۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نہ کرپشن ہے، نہ دہشتگردی، نہ معیشت، نہ کوئی اور، بلکہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ صرف اور صرف ایک اچھا نظام عدل ہے جو جامع قانون، آزاد عدلیہ اور غیر جانبدار انتظامیہ سے وجود میں آسکتا ہے۔

پاکستان کے مقتدر حلقے سوچ لیں کہ آیا وہ مل جل کر مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ایسا جاندار نظامِ عدل پاکستان کو دینے کے لیے کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟

اگر ہاں تو پھر یہ قوم محفوظ ہاتھوں میں ہے ورنہ خاکم بدہن پاکستان واقعی شدید خطرے میں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Tayyab Oct 17, 2017 08:26am
jii bilkul app ki baat se agree kartye hain .main bhi yehi samjhta hon k humarye mulk main taleem insaaf of police theek ho jaye to sab thhek ho sakta he. Allah kare humarye logon ko shaoor aa jaye or wo sahi logon chun kar hukamran muntikhab kaarin or phir wo hukamran in cheezon ko theek Karin.