کراچی: سندھ رینجرز اور پولیس کے انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے مشترکہ پریس کانفرنس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر 2 ستمبر کو ہونے والے حملے کی سی سی ٹی وی ویڈیو فوٹیج دیکھاتے ہوئے کہا کہ اس حملے کا مقصد پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سازش کے تحت بدنام کرنا تھا۔

کراچی میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے رینجرز کے کرنل فیصل عارف کا کہنا تھا کہ اظہار الحسن پر حملے کے بعد انٹیلی جنس کے تحت آپریشن کا آغاز کیا گیا۔

پریس کانفرنس میں 2 ستمبر 2017 کو خواجہ اظہار الحسن پر ہونے والے حملے کی تفصیلات بتائی گئیں جبکہ اس روز حملے کے فوری بعد کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دیکھائی گئیں اور ان پر بریفنگ دی گئی۔

کرنل فیصل نے بتایا کہ خواجہ اظہار الحسن پر حملہ انصار الشریعہ کے دہشت گردوں نے کیا تھا اور اس حملے میں پولیس کی وردی سے مماثل ٹی شرٹ استمعال کی گئی تھی جس کو استعمال کرنے کا مقصد سیکیورٹی اداروں کو بدنام کرنا تھا، جیسا کہ اس سے قبل ایم کیو ایم رہنما کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں پولیس کارروائی، اہلکار جاں بحق، زخمی دہشت گرد فرار

انہوں نے بتایا کہ حملے کے فوری بعد انٹیلی جنس معلومات اور ثبوتوں سے ثابت ہوا کہ اس حملے میں انصار الشریعہ ملوث ہے۔

کرنل فیصل نے بتایا کہ سیکیورٹی اداروں نے خواجہ اظہار الحسن پر ہونے والے حملے کے بعد 4 ستمبر کو مذکورہ تنظیم کے ایک مبینہ دہشت گرد عبدالکریم سروش کے گھر پر چھاپہ مارا تاہم وہ زخمی حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔

انہوں نے مذکورہ تنظیم کی کارروائیوں کے بارے میں بتایا کہ اس تنظیم نے اپنی پہلی کارروائی 21 فروری 2017 کو گلستان جوہر میں کی تھی جہاں ایک پولیس رضا کار کو ہلاک کیا گیا تھا، اس کے بعد 5 اپریل 2017 کو کرنل (ر) ضیاء اللہ ناگی کو ہلاک کیا اور بعد ازاں القاعدہ سے منسلک ہونے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔

اس کے بعد تنظیم کے دہشت گردوں نے 21 مئی 2017 کو 3 پولیس اہلکاروں کو بہادر آباد میں ہلاک کیا اور 23 جون 2017 کو سائٹ کے علاقے میں افطاری کرتے ہوئے 4 پولیس اہلکاروں کو قتل کیا جبکہ 11 اگست 2017 کو ڈی ایس پی ٹریفک پولیس حنیف شاہ کو عزیز آباد کے علاقے میں ان کے ڈرائیور کے ہمراہ قتل کیا۔

رینجرز آفیسر نے بتایا کہ 17 اگست 2017 نادرن بائی پاس پر دو پولیس رضاکاروں کی ہلاکت میں بھی مذکورہ گروہ ہی ملوث تھا جبکہ 28 اگست 2017 کو گلستان جوہر میں اس گروہ نے دو ایف بی آر گارڈز کو قتل کیا اور آخری کارروائی 2 ستمبر 2017 کو خواجہ اظہار الحسن پر کی تاہم کامیاب نہ ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے

کرنل فیصل عامر نے گذشتہ رات مقابلے میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی شناخت کے بارے میں بتایا کہ ان میں گروہ کا امیر شہریار الدین عرف عبداللہ ہاشمی، ٹارگٹ کلر ارسلان بیگ، مہار الحق، سعد جمال، حسان ہارون، طلحہ انصاری، کامران ریاض اور ابوبکر کے ناموں سے ہوئی ہے جبکہ اسی گروہ کا ایک رکن حسان بن نظیر 2 ستمبر کو خواجہ اظہار الحسن پر حملے کے فوری بعد پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا تھا۔

رینجرز حکام نے بتایا کہ تنظیم کے تمام دہشت گرد اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے جنہوں نے افغانستان سے اسلحہ اور گولا بارود کی ٹریننگ لے کررکھی تھی جبکہ گروہ کے دیگر 4 اہم ارکان دانش رشید، جنید رشید، سروش اور مزمل تاحال فرار ہیں اور ممکنہ طور پر بلوچستان میں موجود ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تحقیقات کے دوران یہ ثابت نہیں ہوا کہ ان دہشت گردوں کی کسی بھی تعلیمی ادارے میں غیر قانونی سرگرمیاں جاری تھیں جبکہ واضح رہے کہ ان کی مشتبہ سرگرمیوں کے حوالے سے ان کے والدین کو بھی معلومات نہیں تھیں، انہوں ںے بتایا کہ کچھ افراد کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا تھا تاہم ان ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے جس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز رینجرز نے ایک جاری بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے پولیس کے انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ساتھ مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں قائم رئیس گوٹھ میں مقابلے کے دوران انصار الشریعہ کے 8 مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا۔

رینجرز ترجمان کا کہنا تھا کہ رینجرز اور سی ٹی ڈی نے دہشت گردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاع ملنے پر مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے رئیس گوٹھ کا محاصرہ کیا تو اسی دوران دہشت گردوں نے اہلکاروں پر مورچہ بند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں دو رینجرز اہلکار اور ایک سی ٹی ڈی اہلکار زخمی ہوئے۔

رینجرز نے علاقے میں مزید نفر​ی طلب کرتے ہوئے جوابی کارروائی کا آغاز کیا اور فائرنگ کے تبادلے میں 5 دہشت گردوں کو موقع پر ہلاک کردیا جبکہ 3 دہشت گردوں کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔

مزید پڑھیں: کراچی: رینجرز اور سی ٹی ڈی کی کارروائی، 8 ’دہشت گرد‘ ہلاک

مذکورہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے جدید اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا، جبکہ ان ہلاک دہشت گردوں کی شناخت فوری طور پر سامنے نہیں آسکیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے دو مبینہ دہشت گردوں کی شناخت شہریار عرف ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی کے ناموں سے ہوئی۔

رینجرز ترجمان کے مطابق شہر یار الدین عرف ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی انصار الشریعہ کے امیر اور تمام دہشت گردی کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھے جبکہ ارسلان بیگ انصار الشریعہ کی ٹارگٹ کلنگ ٹیم کا حصہ تھا۔

تاہم 19 اکتوبر 2017 کو ہیرالڈ میگزین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق عبداللہ ہاشمی کو کراچی اور حیدرآباد کو منسلک کرنے والی موٹر وے ایم 9 پر قائم ایک ہاؤسنگ سوسائٹی سے سیکیورٹی اداروں نے چھاپے کے دوران گرفتار کیا تھا۔

اس سے قبل 9 ستمبر 2017 کو شائع ہونے والی ڈان اخبار کی خبر کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انصار الشریعہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے مذکورہ گروپ کے تمام 10 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور ان سے تفتیش کی جارہی ہے۔

یاد رہے کہ 9 ستمبر 2017 کو ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' میں گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید نے کراچی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں ملوث شدت پسند تنظیم انصار الشریعہ کے مبینہ سربراہ ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی کی گرفتاری اور انکشافات سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کی خبر کو بے بنیاد قرار دے دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں