سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف وطن واپسی سے قبل لندن سے جدہ پہنچ گئے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سرپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس مشکل وقت میں وہ اپنے بیرون ملک دوستوں کو اپنا حامی رکھنے کی کوشش کریں گے۔

ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پارٹی صدر نواز شریف کی سعودی شاہی خاندان کے کسی بھی فرد کے ساتھ ملاقات کے بارے میں باقاعدہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا تاہم پارٹی میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم ’اپنے ہمدردوں‘ سے ملاقات کریں گے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کی جانب سے لاہور آمد سے قبل جدہ کے قیام کا پروگرام سعودی عرب میں موجود ان کے دوستوں کی جانب سے یقین دہانی کے بعد بنایا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم نے سعودی عرب میں 7 سال کی جلا وطنی گزاری اور سعودی شاہی خاندان کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں ہر کوئی آگاہ ہے، تاہم حالیہ دونوں میں یمن معاملے کے بعد ان کے ’مثالی‘ تعلقات متاثر ہوئے تھے جنہیں دوبارہ بحال کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔

مزید پڑھیں: نوازشریف پر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فرد جرم عائد

وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اپنی والدہ کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے ہیں جبکہ وہ 26 اکتوبر سے قبل واپس پاکستان آجائیں گے اور اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوں گے۔

مشاہد اللہ خان سے جب سوال کیا گیا کہ کیا سابق وزیر اعظم سعودی شاہی خاندان سے اپنی حمایت حاصل کرنے کے لیے جدہ روانہ ہوئے ہیں؟ جس پر وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ یقیناً ریاض میں نواز شریف کے دوست موجود ہیں تاہم اس وقت ان کے دورہ سعودی عرب کا مقصد اپنی والدہ کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی ہے جن کی وہ بے حد پرواہ کرتے ہیں۔

وزیر مملکت نے الزام لگایا کہ بیرونی طاقتوں نے مقامی سہولت کا استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو پاناما پیپرز کیس میں نااہل کروایا جبکہ نواز شریف کا پاناما پیپرز کیس میں نام شامل نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھٹو اور نواز شریف کے خلاف تحریکوں میں ’یکساں‘ نکات کا جائزہ

ان کا مزید کہنا تھا کہ بیرون ملک طاقتیں یہ جانتیں تھیں کہ نواز شریف کو سیاسی محاذ پر شکست نہیں دی جاسکتی لہٰذا انہوں نے پاناما کا ڈرامہ تیار کیا۔

مشاہد اللہ خان نے مزید کہا کہ 1999 میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے پاداش میں نواز شریف کو سزا دی گئی جبکہ ان کے حالیہ دورِ حکومت میں انہیں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی پاداش میں سزا دی گئی۔


یہ خبر 24 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں