اسلام آباد میں صحافی پر چاقو سے حملہ

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2017
دی نیوز کے صحانی احمد نورانی کو ہسپتال میں طبی امداد دی جارہی ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
دی نیوز کے صحانی احمد نورانی کو ہسپتال میں طبی امداد دی جارہی ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے زیرو پوائنٹ میں نامعلوم افراد نے چاقو کے وار کرکے اخبار ’دی نیوز‘ کے رپورٹر احمد نورانی اور ان کے ڈرائیور کو زخمی کردیا۔

پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے اردو یونیورسٹی کے قریب احمد نورانی اور ان کے ڈرائیور پر چاقو سے وار کیے، جس سے دونوں زخمی ہوگئے۔

واقعے کے فوری بعد زخمیوں کو علاج کے لیے پولی کلینک منتقل کیا گیا۔

پولیس کے مطابق حملے میں متاثر ہونے والے افراد کو سر میں زخم آئے ہیں تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر بنائی جارہی ہے۔

پولیس نے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔

بعد ازاں ملک کے سیاست دانوں، نامور صحافیوں اور سماجی شخصیات نے اسلام آباد میں احمد نورانی پر ہونے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

دی نیوز کے ایڈیٹر انصار عباسی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ 6 حملہ آوروں نے احمد نوارانی پر تشدد کیا جس کے نتیجے میں ان کے سر پر شدید چوٹیں آئیں۔

احمد نورانی کے ساتھی سید طلعت حسین نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس حملے کو 'شرمناک' قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو لاحق خطرات پر اب تک کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ذمہ داروں کی شناخت کرکے ان کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

سینیئر صحافی حامد میر نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے احمد نورانی کے حوالے سے دیئے گئے بیان کی نشاندہی کی، جس میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا '19 ویں صدی کا طریقہ کار 21 ویں صدی کے میڈیا کے دور میں نہیں چلے گا'۔

حملے کا مقدمہ درج

صحافی احمد نورانی پر حملے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

مقدمہ ڈرائیور ممتاز کی مدعیت میں تھانہ آبپارہ میں درج کیا گیا جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ اور احمد نورانی راولپنڈی سے گھر جارہے تھے کہ اردو یونیورسٹی کے قریب 6 موٹر سائیکل سواروں نے روکا جن میں سے دو موٹر سائیکلوں پر کوئی نمبر پلیٹ نہیں تھی۔

مدعی کا کہنا تھا کہ ’دو ملزمان نے مجھے پکڑ کر چھریوں سے وار کیے جبکہ چار افراد نے احمد نورانی کو گاڑی سے کھینچ کر باہر نکال کر ان پر بھی چھریوں سے وار کیے۔‘

واضح رہے کہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2017 کے مطابق صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں پاکستان 139ویں نمبر پر ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ 15 سال میں اب تک 117 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے جن میں سے صرف 3 کیسز ہی عدالت تک جا سکے۔

گزشتہ روز بلوچستان میں خبر رساں ادارے کے دفتر پر حملے میں 8 افراد زخمی ہوگئے تھے جبکہ آواران کے علاقے میں دہشت گردوں نے اخبار لے جانے والی گاڑی پر حملہ کرکے فائرنگ کی اور تمام اخبارات جلادیئے تھے۔

واضح رہے کہ علیحدگی پسند تنظیموں نے بلوچستان میں میڈیا ہاؤسز پر ان کے بیانات جاری نہ کرنے پر حملوں کا اعلان کر رکھا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

qalam Oct 27, 2017 06:47pm
very sad.
تیمور بیگ Oct 28, 2017 05:03am
جنہوں نے حملہ کیا انہوں نے ہی تفتیش کرنی ہے ۔ پولیس بے چاری کو پتہ لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتی۔ جو پورے پاکستان میں چینل بند کروا سکتے ان کے لیے نورانی کی حیثیت کی ؟؟؟؟؟