پاکستان نے امریکا سے منشیات کی روک تھام کے لیے 2002 میں لیے گئے 9 ’ہوئے 2‘ ہیلی کاپٹرز واپس کرنے کے بعد امریکا سے نئے معاہدے کی خواہش کا اظہار کردیا۔

خیال رہے کہ پاکستان پہلے ہی 15 سال قبل امریکا سے لیے گئے 9 میں سے 5 ہیلی کاپٹر واپس کرچکا ہے۔

بعد ازاں وزارت داخلہ، جن کے استعمال میں یہ ہیلی کاپٹر تھے، نے بقیہ چار ہیلی کاپٹر بھی 15 اکتوبر کو واپس کردیئے۔

واضح رہے کہ امریکا نے پاکستان کو فاٹا اور بلوچستان میں منشیات کی روک تھام کے لیے 9 ہیلی کاپٹر اور 3 سیسنا طیارے دیئے تھے تاہم ان طیاروں کو آپریشن ضرب عضب کے دوران مذکورہ علاقوں میں دہشت گردوں کی موجودگی اور ان کی نقل و حرکت کو دیکھنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔

مزید پڑھیں: 'پاکستان طیارے کہیں سے بھی حاصل کرلے گا'

خطے میں منشیات کی اسمگلنگ کے لیے فاٹا اور بلوچستان ایک اہم راستہ ہونے کی وجہ سے امریکا کی جانب سے دیئے گئے ان طیاروں کا اصل مقصد ان علاقوں میں منشیات کی غیر قانونی ترسیل پر نظر رکھنا تھا۔

ان طیاروں کے لیے کئے گئے معاہدے کی مدت پوری ہوجانے پر پاکستان کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو ان طیاروں کو خرید لیا جائے یا واپس کردیا جائے تاہم امریکا کی جانب سے پاکستان پر ان ہیلی کاپٹرز اور طیاروں کی خریداری کے لیے زور دینے کے باوجود اسلام آباد نے ان ہیلی کاپٹرز کو واپس کردیا جبکہ 3 سیسنا طیاروں کو خرید لیا گیا۔

امریکا نے ہیلی کاپٹرز واپس کیے جانے کے فوری بعد ہی انہیں کسی تیسری فریق کو فروخت کرنے کی تیاری کرلی تاکہ پاکستان ان طیاروں کو دوبارہ نہ خرید سکے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف 16 طیارے: امریکی کمپنی بیک وقت پاکستان کی حامی اور مخالف

سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان اور امریکی حکام بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ دہشت گردی کی مالی معاونت میں منشیات کا بہت بڑا کردار ہے جبکہ واشنگٹن کا ماننا ہے کہ خطے میں منشیات کی روک تھام سے دہشت گردی میں کافی حد تک کمی ہوگی۔

پاکستان نے ان ہیلی کاپٹرز کو خریدنے کے لیے دوبارہ دلچسپی ظاہر کی ہے کیونکہ ان کو واپس کرنے کا فیصلہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا تھا اور موجودہ وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق وزارت کو منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف اقدامات اٹھانے میں مدد کے لیے ان ہیلی کاپٹرز کی ضرورت ہے۔

احسن اقبال نے اپنے امریکا کے دورے کے دوران ان ہیلی کاپٹرز کو واپس حاصل کرنے کے لیے سفارت خانے کو نیا معاہدہ کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔


یہ خبر 31 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں