پارسی ہونے کا سب سے بڑا فائدہ آپ کو کراچی ایئر پورٹ پر ہوتا ہے۔

ڈرائنگ روم میں 56 سالہ ارنب لکڑاوالا اپنے سامنے صوفے پر بڑے آرام سے بیٹھیں ساس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ،

'ایئرپورٹ کے سیکیورٹی چیک پوانٹ پر موجود اہلکار اکثر ہمارے نام دیکھ کر ہی کہتے ہیں، 'انہیں جانے دیں، کوئی مسئلے کی بات نہیں۔'

وہ اِس وقت کراچی کی صاف سُتھری اور دیوار بند پارسی کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔ ارنب کی بات سن کر اُن کی 83 برس کی عمر رسیدہ ساس، شرین لکڑاوالا بڑی ہی جواں دلی کے ساتھ ہاں میں سر ہلاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ،

'جب ہم دکانوں پر خریداری کرنے جاتے ہیں تب بھی ہمارے ساتھ کافی ترجیحی برتاؤ برتا جاتا ہے۔ پارسی اپنی ایمانداری اور سخت محنت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔'

وہ بالکل بھی غلط نہیں کہ پارسی (یا جنہیں روایتی اصطلاحات میں زرتشت پکارا جاتا ہے) پاکستان میں دیگر غیر مسلم برادریوں کے مقابلے میں زیادہ پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ 1825 میں پارسیوں کی آمد کے بعد یہ وقت ضائع کیے بغیر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنے کام میں لگ گئے۔

دی کراچی زورسٹرین کیلنڈر کے مصنف مرحوم جہانگیر فرمروز ای پنتھکی کے مطابق، پارسی لوگ موجودہ کراچی کے بانی ہیں۔ 1800 کی دہائی کے وسط میں، کم و بیش ہندوستانی بغاوت کے وقت، جب ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے درپے تھے تب پارسیوں نے خاموشی کے ساتھ اپنی دکانیں کھولنی شروع کیں۔ 1830 سے لے کر اب تک کے پارسی ٹھیکیداروں، ڈاکٹروں، واچ میکرز، تاجروں، موم بتی بنانے والوں، گھڑسواروں، ٹیکس وصول کرنے والوں اور حتیٰ کہ نیلامیاں کرنے والوں کے ریکارڈز انگنت ہیں۔

لیکن کسی زمانے میں بڑی بڑی سلطنتیں بنانے والے اِن پارسیوں کا اب وہ اثر و رسوخ نظر نہیں آتا جو کسی دور میں تھا۔ ارنب بڑے ہی پُرسکون انداز میں کہتی ہیں کہ

'آج کل ہر کوئی یہاں خود کو تھوڑا غیر محفوظ تصور کرتا ہے، اِسی وجہ سے زیادہ تر پاکستان چھوڑ کر جارہے ہیں۔ کئی نوجوان پڑھنے کی غرض سے بیرون ملک گئے اور وہیں بس گئے۔'

اور یہ برادری نہ صرف خود کو باہر پھیلا رہی ہے بلکہ تعداد میں بھی کم ہوتی جا رہی ہے، ایک اندازے کے مطابق 2020 تک دنیا بھر میں پارسیوں کی تعداد صرف 23 ہزار تک ہی رہ جائے گی، یوں اِن کی حیثیت ایک برادری سے گھٹ کر قبیلے تک محدود ہوجائے گی۔

لیکن ارنب نے پاکستان میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ حتیٰ کہ اِن کا پورا خاندان آسٹریلین یا برٹش شہریت حاصل ہونے کی صورت میں پلان بی بھی رکھتا ہے، لیکن وہ اُن چند افراد میں سے ایک ہیں جو ایک طویل عرصے سے یہاں پر قیام پذیر ہیں۔ وہ کہتی ہیں،

'یہاں سے جانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔ یہ میرا گھر ہے، کچھ بھی ہوجائے، میں ہمیشہ یہیں رہوں گی۔'

وہ کچھ دیر ٹھہر کر کہتی ہیں کہ،

'کبھی کبھار لوگوں کے ملک چھوڑ جانے پر مجھے افسوس ہوتا ہے، ملک کو چھوڑ جانے کی وجہ دراصل امن و امان کی صورتحال ہے۔ باقی یہاں سب کچھ بہترین ہے۔'

ارنب کی ساس، شرین کا ماننا ہے کہ پارسی برادری کی تعداد میں کمی کی ایک وجہ تو پارسیوں کی پرانی نسل کا مرجانا ہے اور دوسرا اِن کی اولادوں کا بیرون ملک پھیل جانا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ

'جب ہم یہاں پہلی بار آئے تھے تب ہماری تعداد 5 سے 6 ہزار کے قریب تھی، لیکن اب یہ تعداد گھٹ کر 1 ہزار تک رہ گئی ہے۔ پرانے لوگ مرگئے اور نوجوان ملک چھوڑ کر چلے گئے، اور چھوڑ جانے والوں سے کیا توقع کرنا، وہ کہاں لوٹ کر آتے ہیں۔ جیسے میرے اپنے بچے، میری بیٹی نے ایک سوئس شخص کے ساتھ شادی کی اور وہیں بس گئی۔ میرا دوسرا بیٹا بیرون ملک گیا اور وہیں رہنے لگا۔'

کراچی میں واقع پارسی قبرستان یا مینار خاموشاں—تصویر اے ایف پی
کراچی میں واقع پارسی قبرستان یا مینار خاموشاں—تصویر اے ایف پی

شرین کی باتوں سے لگا کہ جیسے اُنہیں ہندوستان سے پاکستان مجبوراً منتقل ہونا پڑا تھا کیونکہ تقسیمِ ہند کے دوران اُن کے شوہر حبیب بینک میں ملازمت کرتے تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب بینک نے انشورنس کا کام شروع کیا تب بینک والوں نے میرے شوہر کو کراچی آنے کو کہا۔ ہم پارسی کالونی کے بارے میں جانتے تھے، ہم نے بریٹو روڈ کا بھی سُن رکھا تھا اور ہم وہیں آکر رہائش پذیر ہوئے۔

بمبئی کے مضافاتی علاقے سانتا کرز سے تعلق رکھنے والی شرین کو کچھ پتہ نہ تھا کہ کراچی شہر کیسا ہوگا؟ وہ پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ،

'مجھے یہاں کسی قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میں پوری آزادی کے ساتھ بوہری بازار اور ایسے دیگر علاقوں میں گھوما پھرا کرتی تھی۔ ہم جیم خانہ، کراچی کلب، بوٹ کلب، سندھ کلب جایا کرتے، ہمارے کئی دوست ہوا کرتے تھے۔ جب ہم ہندوستان چھوڑ کر جا رہے تھے تب لوگوں نے بڑا ڈرّایا۔ وہ کہتے کہ 'دیکھو وہاں سارے مسلمان ہیں، یہ ہوسکتا ہے، وہ ہوسکتا ہے اور نہ جانے کیا کیا بتایا گیا لیکن جب ہم یہاں آئے تو ہمیں ایسی کسی بات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔'

پارسیوں نے خالی ہاتھوں سے پاکستان کا اقتصادی انفرااسٹریچر کھڑا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ شیریٹن اور پرل کانٹینینٹل جیسے بڑے ہوٹلوں کے بننے سے کافی عرصے پہلے، وہ ڈنشا آواری ہی تھے جنہوں نے کراچی کے پہلے لگژری ہوٹل، بیچ لگژری کی بنیاد ڈالی۔ آج، کراچی میں پارٹی کرنے کی عوامی جگہ کا تو بس تصور ہی کیا جاسکتا ہے، لیکن 1950 کی دہائی میں ’بیچ لگژری کا 007‘ کراچی میں نائٹ لائف کا ایک اہم حصہ ہوا کرتا تھا۔ اِسی طرح دیگر پارسیوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا، جن میں کواسجی گروپ بھی شامل ہے۔ انہوں نے شپنگ اور بندرگاہ پر سامان لادنے اور اتارنے کے کام کا کاروبار شروع کیا، جوکہ اب پاکستان کا سب سے پُرانا شپنگ فرم بن چکا ہے اور اب تک فعال ہے۔

آج پارسی ثقافت پارسیوں کی گھٹتی تعداد کے ساتھ ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ارنب کی 28 سالہ بیٹی کمرے میں داخل ہوتی ہیں اور گفتگو میں شامل ہوتی ہیں۔ یہاں اب تین نسلیں ایک ساتھ بیٹھی ہیں، ہر ایک دوسرے سے کچھ مختلف۔ جینیفر بتاتی ہیں کہ

’اُن کا زیادہ تر بچپن پارسی برادری کے درمیان ہی گزرا ہے اور چونکہ ہم پارسی کالونی منتقل ہوئے تھے اِس لیے ظاہر ہے کہ میں نے کچھ دوست پارسی برادری میں بھی بنائے۔ لیکن میرے اب بھی زیادہ تر دوست مسلمان ہیں۔ میں پارسی اسکول وغیرہ نہیں جاتی تھی۔ پہلے کراچی پارسی انسٹی ٹیوٹ میں کافی سرگرم ہوکر کام کیا کرتی تھی۔ لیکن اب تو خیر،'

وہ ہنستی ہیں اور بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں،

'وہاں بہت گرمی ہوتی ہے اور کافی دور بھی ہے۔'

مجھے یہ جاننے میں چاہ تھی کہ جب شرین پہلی بار کراچی آئیں تھی تب وہ جن پارسی دوستوں سے ملی تھیں کیا وہ اب بھی اُن سے رابطے میں ہیں یا نہیں۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ،

'ڈارلنگ، اِس عمر میں ایسی باتوں کو یاد رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔'

حالیہ دنوں میں چند ایسے پارسی عقائد پر جائزہ لیا جا رہا ہے جن کی پیروی میں اب کافی مشکل پیش آرہی ہے۔ زرتشت ثقافت کے مطابق میت کو مینار خاموشاں لے جایا جاتا ہے تاکہ مرنے والوں کو جلد سے جلد گِدھ کھالیں۔ اُن کے نزدیک میت کو دفنانے اور جلانے کی ممانعت ہے کیونکہ زمین، آگ اور پانی کو مقدس مانا جاتا ہے اور اُنہیں موت اور میت میں شامل نہیں کیا جاتا۔ لیکن ایک عرصے سے کراچی اور بمبئی میں بے تحاشا اربنائزیشن کی وجہ سے گِدھوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے باعث میتیں باہر ہی پڑے آہستہ آہستہ سڑنے گلنے لگتی ہیں۔

پارسیوں پر اب زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ تدفین کے دیگر طریقوں کو اختیار کریں۔ اُنہیں اب سہل طریقوں اور ثقافت و رسومات کے تحفظ میں سے کسی ایک کو چُننا ہوگا۔ پارسیوں کی بیرونِ ملک منتقلی اور اُن کی تعداد میں کمی کی وجہ سے کچھ ہی عرصے میں پاکستان میں کراچی بنانے والوں کی یاددہانی کروانے والوں کی تعداد انگلی پر گننے جتنی رہ جائے گی۔


شناخت مخفی رکھنے کے لیے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

ترجمہ: ایاز احمد لغاری

یہ مضمون ابتدائی طور پر ہرالڈ میگزین کے اگست، 2009 کے شمارے میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

MSR Nov 06, 2017 05:13pm
A very good initiative by Dawn to publish Urdu online news. This way more and more ppl will be able to read dawn.