علم فلکیات میں پاکستان دنیا سے پیچھے کیوں؟

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2017
عالمی خلائی ہفتے کو منانے کا اعلان اقوام متحدہ نے کیا—فائل فوٹو: اقوام متحدہ
عالمی خلائی ہفتے کو منانے کا اعلان اقوام متحدہ نے کیا—فائل فوٹو: اقوام متحدہ

پاکستان میں علمِ فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہوگا کہ ہمارے ملک میں فلکیاتی علم کو غیر اہم کیوں سمجھا جاتا ہے، اور اس اہم ترین شعبے کے لیے حکومت کوئی اقدامات کیوں نہیں اٹھا رہی؟

یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات خود حکومتی عہدیداروں کے پاس بھی نہیں، کیونکہ پاکستان میں حکومتی و ریاستی سطح پر علم فلکیات پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی جاتی، یہی وجہ ہے کہ کائنات کی دوڑ میں باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا واقعی ہمارے ملک میں ذرہ برابر بھی فلکیاتی جستجو نہیں؟

تو جواب ہے کہ ایسا بلکل نہیں، ایسا سمجھنا بلکل غلط ہوگا کہ پاکستان میں فلکیات کو سمجھنے کی بالکل بھی جستجو نہیں پائی جاتی، بے شک اس حوالے سے حکومت کچھ خاص کام نہیں کر رہی، لیکن بہت سے لوگوں نے مل کر اپنی مدد آپ کے تحت کچھ سوسائٹیاں بنا رکھی ہیں، جو چھوٹی سطح پر فلکیات کا علم دیگر تک پہنچانے کا کام کرتی ہیں اور دوربینوں سے آسمانی مشاہدات بھی کرواتی ہیں۔

علمِ فلکیات اتنا اہم ہے کہ اقوام متحدہ نے اس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ’ورلڈ اسپیس ویک‘ یعنی ’عالمی خلائی ہفتہ‘ منانے کا اعلان کر رکھا ہے، اور دنیا ہر سال ماہ اکتوبر میں یہ ہفتہ مناتی ہے۔

اگرچہ گزشتہ ماہ 4 سے 10 اکتوبر میں دنیا بھی حکومتی و ریاستی سطح پر ’عالمی خلائی ہفتہ‘ منایا گیا، مگر پاکستان میں ہر سال کی طرح اس سال بھی کوئی خاطر خواہ پروگرامات نہیں ہوئے، بلکہ کئی لوگ تو اس بات سے ہی بے خبر رہے کہ اکتوبر میں یہ ہفتہ بھی منایا گیا، اور میرا اندازہ ہے کہ پاکستان کے کروڑوں افراد اس بات سے بے خبر ہوں گے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے تحت ’عالمی خلائی ہفتہ‘ بھی منایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ماہرینِ فلکیات خلائی مخلوق کے قریب پہنچ گئے؟

دنیا بھر میں 4 سے 10 اکتوبر تک "عالمی خلائی ہفتہ" منایا جاتا ہے۔ 6 دسمبر 1999 میں اقوام متحدہ نے اعلان کیا کہ دنیا بھر میں 4 سے 10 اکتوبر تک "خلائی ہفتہ" منایا جائے گا۔ سال کے اسی مہینے کی یہی 2 تاریخیں اس لیے رکھی گئیں کیوں کہ 4 اکتوبر ہمیں 4 اکتوبر 1957 کی یاد دلاتی ہے، جب پہلی انسانی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا گیا تھا، اور 10 اکتوبر ہمیں 10 اکتوبر 1967 کی یاد دلاتی ہے، جس دن یہ معاہدہ ہوا تھا کہ کائنات کی ہر چیز کو کسی اشتعال انگیزی کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

فلکیاتی ادارے کے حوالے سے دنیا میں اپنا مقام برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی خلائی ایجنسی ’سپارکو‘ بھی ہر سال ’عالمی خلائی ہفتہ‘ مناتی ہے، سپارکو کے تحت ملک کے تمام صوبائی دارلحکومتوں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہر سال پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں ’عالمی خلائی ہفتے‘ کے دوران سپارکو میں فلکیات و ایروناٹکس سے متعلقہ غیر نصابی سرگرمیاں کروائی جاتی ہیں، جس میں مختلف اسکولوں سے بلائے گئے طلبہ حصہ لیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ طلبہ اس ہفتے میں کچھ نیا سیکھتے ہوں گے، جو انھیں کتابوں میں نہیں پڑھایا جاتا۔ فزکس کی درسی کتابوں میں فلکیاتی عنوان باقیوں کی نسبت قدرِ کم ہوتا ہے، اس لیے طلبہ کو اس بارے میں زیادہ علم نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے جب انھیں ایسے مواقع ملتے ہیں تو وہ اس میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔

ہر سال اس "عالمی خلائی ہفتے" کا ایک مخصوص موضوع ہوتا ہے اور اس کے لحاظ سے ہی مضمون نگاری، "قرآن اور فلکیات" کا سیشن اور ماڈل بنائے جاتے ہیں۔

ملک بھر میں اس ہفتے کا آغاز الله کے نام سے کیا جاتا ہے، یعنی سب سے پہلا سیشن "قرآن اور فلکیات" کا ہوتا ہے، جس میں مختلف بچے قرآن کی وہ آیات پڑھتے ہیں جن میں فلکیات کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے بعد ان پڑھی گئی آیات کا ترجمہ اور تشریح بھی پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ یہ سیشن مقابلے کی صورت میں ہوتا ہے، اور جس اسکول کے بچوں نے قرآن کی وہ آیات پڑھی ہوتی ہیں جو نہایت حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ موضوع سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہوں، انہیں انعام کے طور پر ایک عدد "گلیلین دوربین" (سائنسدان گلیلیو کی دوربین کے طرز پر بنی دوربین) سے نوازا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: بین الاقوامی خلائی مرکز کیسے کام کرتا ہے؟

دوسرے دن "فلکیاتی کوئز" رکھا جاتا ہے، اور کوئز میں پوچھے جانے والے سوالات کی فہرست چند ہفتے پہلے بچوں کو دے دی جاتی ہے، اور اسی میں سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ یہ سیشن بھی بہت دلچسپ اور معلوماتی ہوتا ہے۔

پھر تیسرے دن ماڈل بنانے کا مقابلہ ہوتا ہے۔ طلبہ کو اپنے اسکولوں سے ہی ماڈل تیار کر کے سپارکو کے ہیڈ کواٹر لے جانے ہوتے ہیں، جہاں ان ماڈلوں کو نمائش کے لیے رکھا جاتا ہے، اور پھر سپارکو کی ایک جیوری ٹیم تمام ماڈلز کو دیکھ کر سب سے اچھے ماڈل کا انتخاب کرتی ہے۔ یہ ماڈل بھی اسی موضوع کی مناسبت سے بنائے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ اسی دن دوسرے لان میں مقامی فلکیاتی سوسائٹی اپنی دوربینوں کے ساتھ موجود ہوتی ہیں، جو ان متجسس بچوں کو کائنات کی گہرائیوں میں لے جاتی ہیں۔ مثلاً لاہور میں لاہور فلکیاتی سوسائٹی اور الخوارزمی سائنس سوسائٹی اپنی دوربینیں لگاتی ہیں، جبکہ کراچی میں کراچی فلکیاتی سوسائٹی بھی اس خلائی ہفتے میں اہم کردار سرانجام دیتی ہے۔ اس سال اسلام آباد میں پاک اسٹرونومرز، جو کہ اسلام آباد کی مقامی فلکیاتی سوسائٹی ہے، نے بھی اپنی دوربینوں کے ذریعے اسلام آباد کے ذہنوں کو فلکیاتی علم کی روشنی سے منور کیا۔

سپارکو ہیڈکواٹر لاہور میں لاہور فلکیاتی سوسائٹی کی دوربینوں سے میں نے بذات خود 2013 کے "عالمی خلائی ہفتے" میں "البیریو ستاروں کا نظام" (زمین سے 30 نوری سال دور دو ستاروں کا نظام) 2014 میں "سیارہ زحل" اور "رنگ نیبولا"، 2015 میں "سیارہ مریخ" اور "ستارہ ویگا" اور 2016 میں "لگیوں نیبولا" دیکھا۔

عالمی خلائی ہفتے کے چوتھے دن کی شام "پانی کے راکٹ اڑنے کا مقابلہ" ہوتا ہے۔ اس میں طلبہ کو ایک گھنٹے کا وقت دیا جاتا ہے، جس میں انھیں تمام حسابات کرکے ایک پانی کی بوتل کا راکٹ بنانا ہوتا ہے۔اس کے بعد 80 میٹر دور ایک ہدف رکھا جاتا ہے، اور ہر راکٹ کو اڑا کر دیکھا جاتا ہے۔ جیتنے والے کو انعام سے نوازا جاتا ہے۔

پانچویں دن اختتامی تقریب کا انقعاد ہوتا ہے۔ اس دن سپارکو کے اعلیٰ افسران بھی آتے ہیں۔ تمام مقابلوں میں جیتنے والے طلبہ بھی شریک ہوتے ہیں، اور انعامات تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اس طرح اس فلکیاتی علم سے بھرپور ہفتے کا اختتام ہو جاتا ہے۔

سال کا یہ ہفتہ مجھ سمیت پاکستان کے تمام نوجوانوں کے لیے باقی دنوں سے زیادہ اہم ہے، کیوں کہ عین ممکن ہے کہ پاکستان کی ان فلکیاتی سوسائٹیز، سپارکو اور دیگر اداروں کی کاوشوں کی بدولت ارض پاک سے آنے والے وقتوں میں کوئی ماہر فلکیات بن کر اُبھرے۔ اس سال بھی یہ ہفتہ اسی امید سے منایا گیا کہ کبھی نہ کبھی پاکستان علم فلکیات میں اپنا نام روشن ضرور کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ’خلائی اسٹیشن گرنے کا وقت شروع‘

عالمی خلائی ہفتہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، یورپی و مغربی ممالک اس ہفتے کے دوران نہ صرف خصوصی پروگرامات تشکیل دیتے ہیں، بلکہ ان پروگرامات میں ریاست و حکومت کے سربراہان بھی شرکت کرتے ہیں، جس وجہ سے ایسے پروگراموں میں وہاں کے عوام کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ امریکا میں گزشتہ برس عالمی خلائی ہفتے کے موقع پر سابق امریکی صدر براک اوباما نے بھی حصہ لیا تھا۔ انہوں نے بہت سے سیارے دوربین کی مدد سے دیکھے، اور ان سے محظوظ بھی ہوئے۔اسی طرح دیگر یورپی ممالک کے اعلیٰ ریاستی و حکومتی عہدیدار بھی عالمی خلائی ہفتے کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں، مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔

پاکستان میں سپارکو کے تحت ہونے والے پروگراموں میں صرف اسی ادارے کے کچھ اعلیٰ عہدیداران، سوسائٹیز، تنظیموں، تعلیمی اداروں کے عہدیدار اور طلبہ شرکت کرتے ہیں، اگر ہمارے ہاں بھی عالمی خلائی ہفتے کے موقع پر ہونے والی تقریبات میں ریاستی و حکومتی اعلیٰ عہدیدار شرکت کریں تو ایسے پروگرامات میں عوامی دلچسپی بڑھے گی، اور اس سے ملک و قوم کو فائدہ ہوگا۔

پاکستان میں اگر عالمی خلائی ہفتے کے موقع پر تمام صوبائی دارالحکومتوں میں ہونے والے پروگرامات میں وہاں کے وزرائے اعلیٰ اور وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے پروگرامات میں وزیر اعظم یا صدر شرکت کریں تو نہ صرف فلکیاتی علم میں لوگوں کا شوق بڑھے گا، بلکہ اس سے مثبت تبدیلی بھی آئے گی۔


سید منیب علی پنجاب کالج لاہور کے طالب علم، "لاہور آسٹرونومیکل سوسائٹی (LAST)" اور "دی پلانیٹری سوسائٹی (TPS) کے رکن اور علم فلکیات کے شوقین ہیں۔

سید منیب علی 2013 سے آسمان کا مشاہدہ کر رہے ہیں، علم فلکیات کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Nov 06, 2017 07:00pm
اس بار ایسا لگا کہ اسپارکو والے سو رہے ہیں۔
yasir afridi Nov 06, 2017 10:36pm
Nice Article. Being a visitor at Suparco Exhibition at PAF Museum Karachi October 2017, it was really interesting. At booth there was a model of MARS Red Planet and a student briefed me about the life at MARS. The student said that the source of oxygen at MARS is splitting the CO2 to obtain Oxygen. Noted that there is 95% CO2 at MARS. I asked him how to obtain Oxygen from CO2? The student was silent. Actually there was fight to get first prize. At Suparco Booth there was a microgravity apparatus and drone. I asked any the presenter about development? Reply: SHORTAGE OF FUNDS