ریاض: سعودی عرب میں اہم لوگوں کی گرفتاریوں کے بعد کرپشن کے خلاف جاری مہم کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے شہزادوں، وزراء اور تاجروں تک پھیلا دیا گیا جو سعودی عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔

ڈان اخبار نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ سعودی عرب کے سرکاری حکام کے مطابق گرفتاریوں کا یہ سلسلہ کریک ڈاؤن کا پہلا مرحلہ ہے جو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حالیہ اقدامات میں سے ایک ڈرامائی قدم ہے۔

واضح رہے کہ محمد بن سلمان بین الاقوامی طور پر سعودی عرب کی موجودگی کا اعتراف کرانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر میں اپنی زیادہ طاقت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کے اصلاحات پسند ولی عہد محمد بن سلمان کون؟

32 سالہ ولی عہد کو اپنے والد شاہ سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد مختلف چیلینجز کا سامنا رہا، جن میں یمن کی جنگ، ریاض اور ایران کے تعلقات اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث معیشت پر پڑنے والے اثرات شامل تھے، جبکہ کرپشن کے خلاف حالیہ مہم نے ان طویل چیلنجز کی فہرست میں مزید اضافہ کردیا۔

اس بارے میں سی آئی اے کے سابق اہلکار بروس رائیڈل لکھتے ہیں کہ اس وقت سعودی جس دور سے گزر رہا ہے اس کا سامنا اسے نصف صدی سے زائد عرصے میں کبھی نہیں دیکھنا پڑا، جہاں اسے ایک طرف تیل کی گرتی قیمتوں کی وجہ سے معیشت کو عدم استحکام کا سامنا ہے تو ساتھ ہی یمن جنگ جاری بھی اس کی پریشانی کا سبب ہے، قطر سے منقطع تعلقات بھی سعودی عرب کے لیے ایک مسئلہ ہے جبکہ لبنان، شام اور عراق میں ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ بھی سعودی عرب کی ترقی پر ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔

دوسری جانب کریک ڈاؤن کے حوالے سے ریاست کے اندر یا سوشل میڈیا پر کوئی عوامی مخالفت سامنے نہیں آئی، عام شہریوں کی جانب سے گرفتاریوں کے اقدام کو سراہا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شاہ سلمان کے دورِ اقتدار کا سعودی عرب

تاہم بیرون ملک ناقدین کی جانب سے ولی عہد کے اقتصادی اصلاحات روکنے، مخالفین کو بند کرنے یا سیاسی انتقام لینے کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنا گیا۔

اس حوالے سے معروف سعودی کالم نگار جمال خاشقجی نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے کالم میں کرپشن کے خلاف مہم کی تعریف کی لیکن خبر دار کیا کہ اس طرح کا محدود طریقہ انصاف کا نافذ کرنا، یہاں تک کہ تنقید کرنے والوں پر کریک ڈاؤن اور شاہی خاندان کے ساتھ وفاداری کے معاملات ولی عہد کے روشن خیال رہنما بننے کی راہ میں بڑا چیلنج ہوگا۔

اثاثے منجمد

حالیہ کریک ڈاؤن کے بعد اسٹاک انڈیکس ٹریڈ کے دوران ابتدائی طور پر 1.5 فیصد گر کیا تاہم حکومت سے منسلک فنڈز کی خریداری کے بعد مستحکم حالت میں بند ہوا.

الطیر ٹریول کے مطابق ان کے بورڈ ممبر ناصر بن عقیل الطیر کی اینٹی کرپشن ٹیم کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ان کے 10 فیصد شیئر گر گئے، تاہم سعودی اثیر ٹریڈنگ، ٹوئرازم اور مینوفیکچرنگ اینڈ ریڈ سی انٹرنیشنل نے بتایا کہ ان کے بورڈ ارکان عبداللہ صالح کامل، خالد الملحائم اور امر الدباغ کی گرفتاری کے بعد بھی مارکیٹ آپریشن کام معمول کے مطابق جاری رہا۔

مزید پڑھیں: سعودی ولی عہد کا سعودیہ کو 'ماڈریٹ اسلامی ریاست' بنانے کا عزم

ذرائع کے کہنا تھا کہ سعودی بینکوں نے اس حوالے سے شکایت موصول ہونے والے اکائونٹس منجمد کرنا شروع کردیے، اس سلسلے میں درجنوں افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا جس میں ارب پتی شہزادہ الولید بن طلال بھی شامل تھا، حالیہ کریک ڈاؤن بزنس مین اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا جارہا ہے۔

اس حوالے سے گذشتہ روز اٹارنی جنرل نے قیدیوں سے پوچھ گچھ کی اور بڑی تعداد میں ثبوت جمع کیے۔

سعود المجب کا کہنا تھا کہ تمام قیدیوں کوقانونی ذرائع استعمال کرنے کی مکمل اجازت ہوگی اور ان کا ٹرائل شفاف انداز میں کیا جائے گا۔


یہ خبر 7 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں