اُذُن گول، یعنی تُرکی کی سیف الملوک جھیل

اُذُن گول، یعنی تُرکی کی سیف الملوک جھیل

عبیداللہ کیہر

تُرک ہوا یول لری (Turk Hava Yollari) یعنی ٹرکش ایئر لائن کی ڈومیسٹک فلائٹ کے پائلٹ نے طربزون ایئرپورٹ پر اترنے کا اعلان کیا تو رات کے 2 بج رہے تھے۔ ایک اجنبی سیاح کے لیے رات اور خصوصاً آدھی رات کے یہ لمحات عام طور پر بڑے پریشان کن ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشن یا بس اِسٹینڈ سے باہر آپ کا استقبال کرنے کے لیے کوئی بھی موجود نہ ہو اور آپ صرف ٹیکسی والوں اور ہوٹل عملے کے رحم و کرم پر ہوں۔ تو جناب اُس وقت میرے ساتھ بھی کچھ ایسے حالات تھے چنانچہ میرے محسوسات بھی مختلف نہ تھے۔

صبح ہونے میں ابھی 4 سے 5 گھنٹے باقی تھے۔ میں نے یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ آدھی رات کے اِس پہر ایئرپورٹ سے باہر نہیں نکلوں گا بلکہ وہیں لاؤنج میں ہی کہیں لیٹ کر یا پھر بیٹھ کر رات گزاردوں گا، اور باہر صبح ہونے پر ہی نکلوں گا، لیکن یہ تو بس میری خام خیالی ہی ثابت ہوئی۔

تھوڑی دیر میں جہاز کے پہیے زمین سے لگ گئے۔ اِنجن ساکت ہوتے ہی مسافروں نے جہاز تیزی سے خالی کرنا شروع کردیا۔ طربزون ایئرپورٹ کی عمارت میں داخل ہوا تو سخت مایوسی ہوئی، یہ تو ایک چھوٹا سا ایئر پورٹ تھا۔

لاؤنج ایک مختصر اور اندھیرے سے ہال پر مشتمل تھا، جہاز سے اُترنے والے تمام مسافر سامان وصول ہوتے ہی چند منٹوں میں لاؤنج خالی کر گئے اور جان بوجھ کر سست روی سے چلنے والا میں آخری مسافر رہ گیا۔ ایئرپورٹ کے دو اہلکار لاؤنج کے دروازے پر کھڑے مجھے اچنبھے سے دیکھ رہے تھے، شاید سوچ رہے ہوں گے کہ یہ آخری مسافر بھی دفعان ہو تو دروازہ بند کریں اور کہیں جاکر چین کی نیند سوئیں۔

میں نے سوچا کہ اِن سے رات لاؤنج میں گزارنے کے لیے بات کروں لیکن یہ بس ایک سوچ ہی تھی۔ نہ تو مجھے اتنی اچھی ترک زبان بولنا آتی تھی اور نہ ہی وہ کسی غیر ملکی کو اِس ہال میں اکیلا رات گزارنے کی اجازت دینے پر تیار ہوتے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ آہستگی سے ایئرپورٹ سے باہر نکل آیا۔ میرے باہر آتے ہی گیٹ بند ہوگیا۔ سامنے ایئرپورٹ کا پارکنگ ایریا تھا اور اُس میں کھڑی صرف ایک ٹیکسی اپنی پیلی بتیاں ٹمٹما رہی تھی۔ میں ٹیکسی کی طرف بڑھ گیا۔

میں اپنا بیگ پچھلی سیٹ پر رکھتے ہوئے بولا، 'اچھا اور سستا ہوٹل۔'

'اوکے، اوکے' ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلایا اور میں اگلا دروازہ کھول کر اُس کے برابر میں بیٹھ گیا۔

ٹیکسی ایئرپورٹ کی حدود سے نکلی اور شہر طربزون (Trabzon) کی ویران سڑکوں پر فراٹے بھرنے لگی۔

یہ 2015ء کا اکتوبر تھا اور یہ میرا ترکی کا چوتھا سفر تھا۔ اِس مرتبہ میں پہلی مرتبہ ترکی کے بلیک سی ریجن، یعنی بحیرہ اسود کے ساحلوں پر ترکی کے شمالی خطے میں آیا تھا۔ ترکی کا یہ سفر اصل میں تو استنبول یونیورسٹی کی اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے اختیار کیا گیا تھا، لیکن کانفرنس کے خاتمے پر میں اِدھر نکل آیا تھا۔

ترکی کا پہلا سفر میں نے دو عشرے قبل 1995ء میں کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب نہ انٹرنیٹ کا استعمال عام تھا، نہ ای میل تھی اور نہ ہی سوشل میڈیا کا وجود۔ جو دیکھا حسرت سے دیکھا۔ جو نگاہ ڈالی آخری نگاہ سمجھ کے ڈالی اور جس سے بھی دوستی ہوئی اُس سے جُدا ہونے کو زندگی بھر کی جدائی سمجھا۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ آج کل کی طرح نہیں کہ کسی سے سرِ راہ ہلکی پھلکی ہیلو ہائے کیا ہوئی، رات کو وہ اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ فیس بک پر آن حاضر ہوا اور محبتوں اور دوستیوں کی نئی نویلی داستانیں رقم ہونا شروع ہو گئیں۔

میں نے دنیا کے بہت کم ملک دیکھے ہیں، لیکن جو بھی سیاحت کی ہے بڑی سنجیدگی اور بے حد چاہت کے ساتھ کی ہے۔ سفر میں آنے والے ایک ایک مقام اور ہر ایک شخص کو اہمیت دی ہے اور پھر اپنے ریکارڈ کا حصہ بناکر اُسے زندہ جاوید کرنے کی کوشش کی ہے۔

جس ملک میں بھی گیا ہوں واپسی پر اُس کا سفرنامہ ضرور تحریر کیا ہے اور اُس ملک میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو اکثر اپنی تحریر و تقریر کا موضوع بنایا ہے۔ لیکن ترکی ایک ایسا ملک ہے کہ یہاں میں جب بھی گیا ایک تشنگی لیے واپس آیا کہ نہیں، ابھی نہیں، ابھی کچھ اور، ھل من مزید، چنانچہ 1995ء میں پہلے سفر سے واپس آیا تو یوں لگا کہ جیسے ابھی کچھ بھی نہیں دیکھا۔ اِسی وجہ سے ترکی کا سفرنامہ بھی نہیں لکھا۔ پھر اِس کے 12 سال بعد 2007ء میں دوبارہ جانا ہوا تو ترکی کے کئی شہروں میں آوارہ گردی کی۔ واپس آکر ایک اخبار میں اُس سفر کا مختصر رپورتاژ تو ضرور تحریر کیا، لیکن دل میں بہت کچھ تھا جسے نوکِ قلم پر نہ لا سکا۔

2010ء میں ترکی کا تیسرا سفر کیا تو واپسی پر کچھ ہمت ہوئی اور میں نے ترکی پر ایک تفصیلی کتاب لکھنے کا آغاز کردیا۔ اُس کتاب میں، میں نے اپنی تینوں سیاحتوں کی روداد کے ساتھ ساتھ ترکی کی تاریخ و ثقافت اور تہذیبی و سیاسی کشمکش کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ "یارِ مَن ترکی" پہلے تو کراچی کے ایک اخبار میں قسط وار شائع ہوئی اور بالآخر 2015ء کے شروع میں یہ کتاب پرنٹ ہوکر مارکیٹ میں آگئی۔

استنبول یونیورسٹی شعبہءِ اردو کے سربراہ ڈاکٹر خلیل طوقر صاحب سے اُسی سال کراچی کی اردو کانفرنس میں میری پہلی ملاقات ہوچکی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی میری کتاب چھپی، میں نے اُس کی کچھ کاپیاں استنبول یونیورسٹی پوسٹ کردیں اور ساتھ ہی اِس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ کاش اِس کتاب کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام استنبول یونیورسٹی ہی میں ہوجائے۔ یہ اندازہ نہ تھا کہ قدرت مجھ پر کس قدر مہربان تھی۔ چند ہی ماہ بعد اکتوبر 2015ء میں استنبول یونیوسٹی نے ’ترکی میں اردو تدریس کے سو سال‘ کی تکمیل پر ایک انٹرنیشنل سمپوزیم منعقد کیا اور ڈاکٹر خلیل طوقر نے کمال مہربانی سے میری کتاب کی تقریب رونمائی کو بھی اِس کانفرنس کا حصہ بنا کر مجھے شرکت کا دعوت نامہ بھیج دیا۔ سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔

’ترکی میں اردو تدریس کے سو سال‘ کی تکمیل پر ایک انٹرنیشنل سمپوزیم کے موقعے پر میری کتاب کی تقریب رونمائی بھی ہوئی—تصویر عبیداللہ کیہر
’ترکی میں اردو تدریس کے سو سال‘ کی تکمیل پر ایک انٹرنیشنل سمپوزیم کے موقعے پر میری کتاب کی تقریب رونمائی بھی ہوئی—تصویر عبیداللہ کیہر

11 اکتوبر 2015ء کو میں استنبول پہنچ گیا۔ اگلے دن یہ سہ روزہ کانفرنس شروع ہوگئی جس میں دنیا بھر سے اردو زبان کے ادیب، دانشور، اساتذہ اور طالبِ علموں سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ اردو اور ترکی سے متعلق لاتعداد مقالے پڑھے گئے اور شرکاء کے لیے دوستیوں اور چاہتوں کے تازہ باب بھی کھلے۔

برطانیہ سے رضا علی عابدی، فہیم اختر، مہ جبیں انصاری، امریکا سے ستیہ پال آنند، جرمنی سے سرور غزالی، ناروے سے سید مجاہد علی، فرانس سے سمن شاہ، بھارت سے نند کشور وِکرم، ڈاکٹر انور پاشا، ماریشس سے ڈاکٹر احمد اعجاز، روس سے پروفیسر لڈمیلا واسیلی وا، بنگلہ دیش سے ڈاکٹر محمودالاسلام، ایران سے ڈاکٹر علی بیات، ڈاکٹر کیومرسی اور پاکستان سے ڈاکٹر فاطمہ حسن، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر عطیہ سید، ڈاکٹر قاسم بگھیو، طارق ہاشمی، نگار سجاد ظہیر اور پروفیسر عصمت اللہ زاہد سمیت کئی بہترین شخصیات کے ساتھ سہانے اور یادگار لمحات گزرے۔

کانفرنس تو 3 دن میں ختم ہوگئی، مگر استنبول میں مزید 2 دن اور رونق میلہ لگا رہا۔ بالآخر سارے لوگ رخصت ہوئے اور میں اکیلا رہ گیا۔ استنبول کے کچھ تُرک دوستوں سے ملاقاتوں کے بعد میں نے بھی رختِ سفر باندھا، مگر پاکستان کے لیے نہیں، شمالی ترکی کے لیے۔

اپنے پچھلے اسفار میں، میں استنبول کے علاوہ ترکی کے دیگر شہروں انقرہ، ایدرنہ، بورصہ، قونیہ، مرسین، انطالیہ، چناق قلعہ، بندیرمہ، انطاکیہ، عثمانیہ اور ادانا وغیرہ کی سیاحت کرچکا تھا، لیکن بحیرہ اسود کے ساحلوں پر ترکی کا شمالی خطہ ابھی تک نہیں دیکھ پایا تھا۔ بحیرہ اسود کو ترک زبان میں قرہ دینیز (Karadeniz) کہتے ہیں جس کا مطلب وہی ہے، کالا سمندر، بلیک سی۔

یہ خطہ جہاں خوبصورت اور دلفریب ساحلوں سے سجا ہوا ہے وہیں اِس کا کنارا سرسبز وشاداب پہاڑوں، دریاؤں اور جھیلوں کی بھی آماج گاہ ہے۔ بلیک سی ریجن کے نمایاں شہروں میں سینوپ، اردو، ریزہ، سیمسون اور طربزون شامل ہیں۔ ویسے تو یہ سارے ہی شہر بہت خوبصورت اور قابلِ دید ہیں لیکن اِن میں طربزون خاص طور پر زیادہ مشہور ہے کہ یہاں پہاڑوں کی بلندیوں میں اِسی طرح کی ایک خوبصورت جھیل "اُذُن گول" (Uzungöl) واقع ہے کہ جیسی پاکستان کی وادئ کاغان میں جھیل سیف الملوک ہے۔ میں اِس بار یہ جھیل دیکھنا چاہتا تھا۔

اذن گول کو ترکی کی سیف الملوک کہنا غلط نہ ہوگا—تصویر عبیداللہ کیہر
اذن گول کو ترکی کی سیف الملوک کہنا غلط نہ ہوگا—تصویر عبیداللہ کیہر

طربزون استنبول سے ایک ہزار 69 کلومیٹر دور ہے۔ بس کے ذریعے یہ سفر تقریباً 20 گھنٹے کا بنتا ہے۔ میں نے یہ سفر ڈائریکٹ طربزون تک کرنے کے بجائے براستہ انقرہ طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ انقرہ میں میرا ایک بہت عزیز ترک دوست مصطفےٰ آقچیلک رہتا ہے۔

میں نے اُسے فون پر اطلاع دی کہ میں انقرہ آرہا ہوں۔ اُس نے کہا کہ اگر میں استنبول سے انقرہ جانے والی کوئی لیٹ نائٹ بس پکڑلوں تو وہ مجھے صبح سویرے انقرہ پہنچا دے گی اور وہاں وہ بس ٹرمینل پر میرے استقبال کے لیے موجود ہوگا۔ یہی ہوا۔ میں نے دوپہر کو ہی استنبول والے ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا۔ رات گئے تک بحیرہ مرمرہ کے ساحلوں، آبنائے باسفورس کے کناروں اور خلیج زرّیں کے پلوں پر آوارہ گردی کرتا رہا اور رات ڈیڑھ بجے کی بس پر استنبول سے انقرہ روانہ ہوگیا۔

انقرہ بس ٹرمینل پر مصطفےٰ آقچیلک اپنی گاڑی لیے میرے استقبال کے لیے موجود تھا۔ تین سال پہلے ہم نے پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا سفر ایک ساتھ کیا تھا۔ اُس کے بعد اُس سے آج ملاقات ہو رہی تھی۔

میں مصطفےٰ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا اور اُس کی گاڑی انقرہ کے کوچہ و بازار میں دوڑنے لگی۔ سارا دن انقرہ میں آوارہ گردی کے بعد مصطفےٰ نے مجھ سے پوچھا کہ آگے کیا ارادہ ہے؟ میں نے اُسے بتایا کہ میں طربزون جانا چاہ رہا ہوں۔

"طربزون!، اتنی دور، کب؟ کیوں؟" اُس نے حیرت سے مجھے دیکھا۔

"آج ہی، مجھے وہاں جھیل اُذُن گول دیکھنی ہے۔ آج رات کو کسی بس سے نکلوں گا تو کل دن میں کسی وقت وہاں پہنچ جاؤں گا۔"

"بس میں کیوں جا رہے ہو؟" مصطفےٰ بولا۔ "جہاز میں جاؤ۔"

"جہاز میں!" میں ہنسا۔"اتنے پیسے نہیں بھائی۔ بس ہی ٹھیک ہے۔"

"کتنے پیسے؟ جہاز اور بس کے کرائے میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔" مصطفےٰ نے فوراً اپنا موبائل نکالا اور سرچ کرکے جہاز اور بس کے کرایوں کا موازنہ پیش کردیا۔ پاکستانی کرنسی کے مطابق انقرہ سے استنبول تک بس کا کرایہ 3 ہزار روپے تھا جبکہ جہاز کا کرایہ 4 ہزار روپے۔ میں نے فوراً سے پیشتر ہتھیار ڈال دیے۔

مصطفےٰ نے اپنے کریڈٹ کارڈ سے اُسی وقت آن لائن بکنگ کردی اور ہم نچنت ہوکر بیٹھ گئے۔ فلائٹ رات ایک بجے تھی۔ بارہ بجے کے قریب مصطفےٰ نے مجھے انقرہ ایئرپورٹ پر چھوڑا۔ بورڈنگ کارڈ لینے والا میں شاید آخری مسافر تھا کیونکہ مجھے دیکھتے ہی کاؤنٹر کلرک مسکرا کر بولی،"ویلکم مسٹر عبیداللہ۔"

تھوڑی ہی دیر میں جہاز انقرہ کی فضاؤں میں بلند ہوا اور بحیرہ اسود کے کنارے کنارے طربزون کی طرف محو پرواز ہوگیا۔ مجھے ونڈو سیٹ ہی ملی تھی لیکن اِس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ باہر اندھیرا تھا۔ ایئر ہوسٹس نے کچھ دیر میں صرف جوس پیش کیا جو صبر شُکر کرکے پی لیا۔ حسبِ خدشہ جہاز آدھی رات کو ہی طربزون پہنچا اور میں ٹیکسی لینے پر مجبور ہوا جو مجھے بھیگتی رات میں بلیک سی کے کنارے کنارے نہ جانے کون سے ہوٹل کی طرف لیے جا رہی تھی۔

ہوٹل ایرائے (Hotel Eray) کے اونگھتے استقبالی کلرک نے جب میرا پاکستانی پاسپورٹ دیکھا تو اُس کا چہرہ یکدم برادرانہ ہوگیا۔ اُس نے بہت اچھا سنگل بیڈ ایئرکنڈیشنڈ روم صرف 2 ہزار روپے پاکستانی میں مجھے دے دیا۔ تقریباً اتنے ہی پیسے مجھ سے ٹیکسی ڈرائیور نے ایئرپورٹ سے یہاں تک کے لے لیے تھے۔

طربزون ہزاروں سال پرانا شہر ہے۔ میں یہاں آنے والا کوئی پہلا "مشہور" سیاح نہیں بلکہ 800 سال پہلے بے چارہ مارکوپولو بھی یہاں سے گزرا ہے اور اُس نے اپنے سفرنامے میں طربزون کا ذکر کیا ہے۔ 1969ء میں ہمارے پیرو مرشد مستنصر حسین تارڑ نے بھی ایک رات یہاں قیام کرکے اِس شہر کو شرف بخشا تھا۔ چنانچہ اب ہم پر بھی لازم تھا کہ اِس شہر میں قدم رنجہ فرمائیں۔

فاتح قُسطنطنیہ سلطان محمد دوم نے اِس شہر کو 1461ء میں، یعنی فتح قسطنطنیہ کے 7 سال بعد فتح کیا تھا۔ اِس سے قبل یہ بازنطینی سلطنت کے زیرِ نگیں تھا۔ یہ شہر تُرکی کے شمال مغربی سرے پر ایران، آرمینیا اور جارجیا کی سرحدوں کے قریب واقع ہونے کی باعث تجارتی، جغرافیائی، تاریخی اور جنگی اہمیت رکھتا ہے۔ بحیرہ اسود کے ساحل پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ روس کے بھی بہت قریب ہے لہٰذا ماضی قریب تک یہ روسی حملوں کا خاصا شکار رہا ہے۔ یہ قدیم شاہراہِ ریشم پر چین سے یورپ جانے والے تجارتی قافلوں کا بھی ایک اہم پڑاؤ تھا، بلکہ قدیم ایران اور مشرقی یورپ کے درمیان سمندری تجارت کا ایک اہم مرکز تھا۔

یورپی جہاز رانوں کے لیے طربزون ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ خصوصاً سمندر میں طوفان کے سبب راستہ بھٹک جانے والے جہازوں کے لیے طربزون ایک اہم ریفرنس پوائنٹ تھا، یعنی اگر کوئی جہازراں بحیرہ اسود میں طوفان کے باعث راستہ بھٹک کر طربزون کی سمت کھو دے تو اُس کی منزل تک پہنچنے کی اُمید بھی دم توڑ دیتی تھی۔ جیسے اردو میں ایک مقولہ "ہنوز دلی دور است" اِس وقت بولا جاتا ہے کہ جب بہت سارا سفر کرنے کے بعد بھی مسافر منزل تک نہ پہنچ پائے، عین اِسی طرح اطالوی زبان میں آج بھی ایک مقولہ "پردیریلا طربزون دا" اُس وقت بولا جاتا ہے کہ جب انسان کسی صدمے یا مایوسی کے زیرِ اثر اپنی سُدھ بُدھ کھو بیٹھتا ہے۔

طربزون بیک وقت ایک ساحلی اور پہاڑی شہر ہے۔ اِس کے سامنے بحیرہ اسود اور پشت پر شمالی ترکی کا معروف سلسلہءِ کوہ "کوزے انادولو" (Kuzey Anadolu) واقع ہے۔ میری منزل جھیل اُذن گول اِنہی پہاڑوں میں کہیں چھپی ہوئی میری منتظر تھی۔

اگلے روز صبح اُذُن گول جانے والی بس مجھے ہوٹل کے بالکل سامنے ہی سے مل گئی۔ اُذُن گول طربزون شہر سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع چائیکارا (Çaykara) میں واقع ہے۔ اُس کوسٹر بس میں زیادہ تر مسافر چائیکارا ہی کے تھے۔ میں واحد غیر ملکی اور سیاح تھا۔ صبح 10 بجے ڈرائیور نے بس اسٹارٹ کی اور طربزون سے ریزہ جانے والی شاہراہ پر چل پڑا۔ یہ خوبصورت دورویہ شاہراہ بحیرہ اسود کے دلفریب ساحلوں پر سرسبز پہاڑوں کے دامن میں لہراتی چلی جاتی ہے۔ یہ طربزون سے آگے ترکی کے ایک اور بڑے شہر ریزہ (Rize) تک جاتی ہے، لیکن ہمیں ریزہ سے 40 کلومیٹر پہلے دائیں طرف پہاڑوں کے اندر داخل ہوجانا تھا۔

اُذُن گول کی جانب رواں دواں—تصویر عبیداللہ کیہر
اُذُن گول کی جانب رواں دواں—تصویر عبیداللہ کیہر

اُذُن گول کی جانب رواں دواں—تصویر عبیداللہ کیہر
اُذُن گول کی جانب رواں دواں—تصویر عبیداللہ کیہر

ایک تو یہ شاہراہ بڑی اعلیٰ اور نئی نویلی تھی، دوسرا یہ کہ سبزے میں گھری ہوئی تھی، اور تیسرا یہ کہ ساحلِ سمندر پر رواں تھی، آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ یہ کس قدر خوبصورت سفر تھا۔ جا بہ جا رُک جانے کا دل کرتا تھا۔ پہلے تو میں کیمرے سے تصویریں کھینچتا رہا، لیکن پھر وڈیو ریکارڈر آن کردیا۔ اکتوبر کا مہینہ تھا۔ ٹورزم سیزن ختم ہوچکا تھا شاید اِسی لیے بس میں، میں واحد غیر ملکی تھا۔ باقی تمام مسافر مقامی تھے جو مختلف اسٹاپ پر اُتر چڑھ رہے تھے۔ چونکہ یہاں سیاحوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اِس لیے بس میں کسی غیر ملکی کا ہونا اُن کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ لہٰذا "نو لفٹ"۔ سفر خاموشی سے طے ہو رہا تھا۔

آرسن، قلعہ جِک، اراکلی اور سُرمنہ کے قصبوں سے آگے آئے تو پہاڑوں سے اترنے والی ایک ندی سے سامنا ہوا جو بحیرہ اسود میں شامل ہو رہی تھی۔ یہ ندی اوپر پہاڑوں میں جھیل اُذُن گول ہی میں سے نکل کر یہاں تک پہنچی تھی اور ہمیں اب شاہراہِ ریزہ اور ساحل سمندر کو چھوڑ کر اُسی ندی کے کنارے کنارے پہاڑوں میں سفر کرنا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے ناران میں جھیل سیف الملوک سے بہہ کر آنے والا نالا نیچے دریائے کنہار کی طرف جاتا ہوا ملتا ہے تو جھیل کی طرف جانے والے مسافر شاہراہ کو چھوڑ کر اُس نالے کے ساتھ ساتھ اوپر پہاڑوں کی طرف سفر شروع کر دیتے ہیں۔

ہماری بس پل سے پہلے ہی دائیں طرف مڑ گئی اور اس ملگجے پانیوں والی ندی کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ کچھ دیر میں چائیکارا آگیا۔ یہ ترکی کا ایک تاریخی قصبہ ہے۔ 15ویں صدی میں سلطنت عثمانیہ میں شامل ہونے سے پہلے یہ ایک اہم یونانی آبادی ہوا کرتی تھی، بلکہ قدیم آبادیوں میں یہاں اب بھی کہیں کہیں یونانی زبان بولی جاتی ہے۔ چائیکارا میں بس تقریباً خالی ہوگئی۔ چند ہی مسافر رہ گئے جن میں میری برابر والی سیٹ پر بیٹھی دو لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ وہ بار بار کن اکھیوں سے میری طرف دیکھتی تھیں، لیکن میں دیکھتا تھا تو انجان بن جاتی تھیں، بات نہیں کرتی تھیں۔ میں بھی نہیں کرتا تھا کہ زبانِ یارِ من ترکی پر اتنا عبور نہیں۔

اذن گول پہنچ گئے—تصویر عبیداللہ کیہر
اذن گول پہنچ گئے—تصویر عبیداللہ کیہر

اُذُن گول کے دلکش مناظر—تصویر عبیداللہ کیہر
اُذُن گول کے دلکش مناظر—تصویر عبیداللہ کیہر

چائیکارا سے آگے زیادہ تر سبزے سے ڈھکے مگر ویران پہاڑ ہی تھے۔ چڑھائی کے ساتھ ساتھ ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ بس کوئی نصف گھنٹہ مزید چلی ہوگی کہ سڑک کے ساتھ ساتھ بائیں طرف خوبصورت ریسٹورنٹ، ہوٹل اور دوکانیں شروع ہوگئیں جبکہ دائیں طرف شفاف پانی کی ندی بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ سامنے دور واقع ایک مسجد کا بلند و بالا گنبد اور دو اونچے اونچے مینار نمودار ہوئے، ارے یہ تو بالکل ویسی ہی مسجد ہے جو مجھے انٹرنیٹ پر تصویروں میں جھیل اُذُن گول کے کنارے نظر آتی تھی اور اپنی طرف بلاتی تھی۔ میں یکدم الرٹ ہوکر بیٹھ گیا۔

ندی کے ساتھ ساتھ چلتی شاہراہ سے دور واقع مسجد کا بلند و بالا گنبد اور مینار نظر آنے لگے تھے—تصویر عبیداللہ کیہر
ندی کے ساتھ ساتھ چلتی شاہراہ سے دور واقع مسجد کا بلند و بالا گنبد اور مینار نظر آنے لگے تھے—تصویر عبیداللہ کیہر

اُذن گول جھیل کے ساتھ واقع مسجد—تصویر عبیداللہ کیہر
اُذن گول جھیل کے ساتھ واقع مسجد—تصویر عبیداللہ کیہر

بس جیسے ہی مسجد کے پہلو سے گزر کر آگے ہوئی، سرسبز پہاڑوں کے دامن میں نیلگوں پیالے کی طرح پھیلی ہوئی جھیل ایک دم آنکھوں کے سامنے آگئی، یا خدا، یعنی میں بالآخر اُس جگہ آ پہنچا تھا، وہ مقام کہ جو برسوں سے میرے لیے صرف کاغذ پر چسپاں ایک ٹُو ڈائمنشنل عکس سے زیادہ نہیں تھا، اب ایک جیتا جاگتا، ہلکورے لیتا، رنگ بکھیرتا تھری ڈائمنشنل وجود بن کر سامنے آگیا تھا۔ لیکن بس والے نے یہاں بس نہیں روکی۔ میں یہ سوچ کر بیٹھا رہا کہ شاید آگے اسٹاپ ہو، لیکن تھوڑی دیر بعد گاڑی نے جھیل کا کنارا چھوڑ دیا اور آگے چلنے لگی۔ میں کھڑا ہوگیا اور اُذُن گول کی آواز لگائی تو ڈرائیور نے بریک لگا دیا۔ میں فوراً بس سے اتر آیا۔

بس آگے چلی گئی اور میں ایک یخ بستہ ویرانے میں ٹھنڈی ہواؤں کی زد میں کھڑا رہ گیا۔ پیدل چلتا ہوا پیچھے کی طرف آیا اور جھیل کے کنارے پر بنی پختہ روش پر چہل قدمی شروع کردی۔ تیز ہواؤں کی وجہ سے جھیل کا سبزو نیلگوں پانی ہلکورے لے رہا تھا اور اُس کی لہریں کنارے پر چھپاکے مار رہی تھیں۔

دور جھیل کے پار دوسرے کنارے پر گھنے درختوں کے جنگل میں ہوٹلوں کی رنگا رنگ خوبصورت عمارتیں ساکت کھڑی ایک دلفریب منظر تخلیق کر رہی تھیں۔ جھیل کی سطح پر تیرتی بطخوں نے مجھ پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالی اور اپنی تیراکی میں مگن ہوگئیں۔ اُن بیچاریوں کو کیا پتہ کہ یہ آوارہ گرد ہزاروں میل کا سفر کرکے اُن کے اِس جہانِ دلفریب تک پہنچا ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے بس میں میرے برابر والی نشست پر بیٹھی ہمسفر بھی یہی بطخیں تھیں۔

اُذُن گول نامی یہ جھیل بھی بالکل اُسی طرح وجود میں آئی ہے جیسے ہماری وادئ ہنزہ کی عطا آباد جھیل۔ دریائے ہنزہ میں جب ایک عظیم الجثہ پہاڑی تودہ ٹوٹ کر گرا تو اُس نے دریا کا راستہ روک دیا۔ جب تک پانی اُس بلند رکاوٹ کو عبور کرکے آگے بہنے کا راستہ پاتا، تب تک پیچھے اِس کے پھیلاؤ نے میلوں تک علاقے کو اپنے اندر سمو کر ایک جھیل کی شکل اختیار کرلی۔ آبادیاں دریا برد ہوئیں، انسان بے گھر ہوئے، لیکن قدرت کا مقابلہ کون کرسکتا ہے؟ لوگ کہیں اور جاکر آباد ہوئے، دریا نے بھی کچھ عرصے میں آگے بہنا شروع کردیا، البتہ اِس کے نتیجے میں حسین و دلفریب عطا آباد جھیل تخلیق ہوگئی جو آج دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ایک نئی کشش کا سامان ہے۔ بالکل اُسی انداز میں کسی زمانے میں یہاں سے بہتی ہوئی ندی میں بھی پہاڑ ٹوٹ کر گرا تھا اور اِس نے پانی کے بہاؤ کو اُس وقت تک روکے رکھا کہ جب تک یہ جھیل نہ تشکیل پاگئی۔

لفظ 'اُذُن' (Uzun) ترکی زبان میں طویل کے لیے بولا جاتا ہے جبکہ 'گول' (Göl) جھیل کو کہتے ہیں۔ ہمارے شمالی علاقہ جات میں بھی بہتے پانی کے لیے 'قُل' یا 'قول' کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ 'ق' کا تلفظ عربوں میں 'گ' کی آواز سے بھی ادا ہوتا ہے، جیسے سعودی عرب والے اپنے سکے کو لکھتے تو قُرش ہیں مگر کہتے گُرش ہیں۔ تو یوں یہ اُذُن قول یہاں اُذن گول کہلاتی ہے، یعنی لمبی جھیل۔

اُذُن گول ہے تو ہماری جھیل سیف الملوک ہی کی طرح پہاڑوں کی بلندیوں میں، لیکن اِن دونوں جھیلوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ جھیل سیف الملوک سطح سمندر سے ساڑھے دس ہزار فٹ بلند ہے، اور چونکہ اتنی بلندی پر درخت نہیں اُگ پاتے اس لیے جھیل سیف الملوک کے ارد گرد والے پہاڑ سبزے سے خالی اور برف پوش ہیں۔ جبکہ اُذُن گول سطح سمندر سے صرف ساڑھے تین ہزار فُٹ بلند ہے، چنانچہ اِس کے اطراف میں پہاڑ سرسبز جنگلوں سے ڈھکے ہوئے ہیں اور یہ سبز حاشیے اور ڈھلوانیں اِس کی دلفریبی میں بے حد اضافہ کرتے ہیں۔ پھر اِس کے ایک سرے پر ایستادہ خوبصورت گنبد و مینار والی مسجد بھی اِس کی دلکشی میں اضافہ کرتی ہے اور یوں یہ جھیل ایک سیاح کی محبوبہ بن جاتی ہے۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، کوئی نہیں تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور تیزی سے اپنی محبوبہ کی طرف لپک گیا۔


عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔