اسلام آباد: پاکستان میں درجن بھر سے زائد آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) اور ریفائنریز کی نمائندہ تنظیم دی آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) نے ہونڈا پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ وہ مبینہ طور پر کم معیار کا ایندھن فراہم کرنے کے حوالے سے اپنی شکایت واپس لے ورنہ قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔

واضح رہے کہ ہونڈا اٹلس کار پاکستان لمیٹڈ کی جانب سے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی( اوگرا) کو شکایت درج کرائی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاکستان میں تین بڑی آئل کمپنیوں پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او)، ٹوٹل اور شیل پاکستان کے ایندھن میں میگنیز کی مقدار زیادہ ہے، جس سے ان کی گاڑیوں کے انجن کو نقصان پہنچ رہا ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی حالیہ 1.5 ایل وی ٹیک ٹربو گاڑی کی پیداوار کو بھی بند کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق او سی اے سی کو ان حالات میں مشکلات کا سامنا ہے کیوںکہ ان کہ اپنے ممبر حیسکول پیٹرولیم نے ہونڈا کی شکایت کی حمایت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مارکیٹ میں ایندھن کو مطلوبہ معیار کے مطابق بہتر بنائے۔

اس بارے میں او سی اے سی حکام کا کہنا تھا کہ حیسکول تینوں بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے خلاف بات کرکے خود کو سامنے لانا چاہتا ہے تاہم اس معاملے میں حیسکول سے اندرونی طور پر بات کریں گے۔

مزید پڑھیں: ہونڈا کی شکایت پر آٹوز اور آئل انڈسٹری میں ہلچل

حیسکول کی جانب سے پیدا کیے جانے والے تاثر پر او سی اے سی نے واضح کیا کہ ملک بھر میں فروخت ہونے والا ایندھن وزارتِ پیٹرولیم اور توانائی سے منظور شدہ ضابطہ کار کے مطابق ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حیسکول سمیت تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ملک کے ضابطہ کار کے مطابق مقامی ریفائنریز سے پیٹرولیم منصوعات خریدتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ خراب انجن کے منیجمنٹ سسٹم یا سلفر کی زیادہ مقدار کے باعث کیٹالسٹ بند ہوتا ہے اور ایندھن میں سلفر کیٹالک کنورٹر کو نقصان پہنچاتا ہے۔

واضح رہے کہ ایندھن کے معیار کو برقرار رکھنے اور انجن کو بند ہونے سے بجانے کے لیے آر او این پر اس کو ناپا جاتا ہے۔

او سی اے سی کے مطابق جب تک اوکٹین گاڑی کے معیار پر پورا نہیں اترتا تب تک اس کی جانچ کی جاتی ہے اور یہ انجن خراب کرنے کی وجہ نہیں ہوتا۔

یہ پڑھیں: ’پی ایس او، شیل اور ٹوٹل کی پیٹرولیم مصنوعات گاڑیوں کیلئے نقصان دہ

انہوں نے کہا کہ مبینہ طور پر ہونڈا سوک 1.5 ایل وی ٹیک ٹربو کا ماڈل پاکستانی مارکیٹ میں دستیاب ایندھن کے مطابق نہیں ہے کیونکہ یہ یورو 4 ٹیکنالوجی کا حامل انجن ہے جبکہ پاکستان میں فروخت ہونے والے پیٹرول میں سلفر کی مقدار گاڑیوں کے اخراج کے لیے نامناسب ہے۔

خیال رہے کہ اس حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہونڈا کی اس گاڑی کا انجن منیجمنٹ سسٹم پاکستانی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے پیٹرول کے مطابق نہیں ہے اور یہی اس گاڑی کے ناکام ہونے کی وجہ بتائی جاتی ہے۔

او سی اے سی حکام کا کہنا ہے کہ رپورٹس کے مطابق جاپان میں موجود ہونڈا ٹیم 1.5 ایل وی ٹیک گاڑیوں کا سوفٹ ویئر تبدیل کررہی ہے کیونکہ ان کو اندازہ ہوا ہے کہ گاڑیوں کے انجن میں خرابی فیول سے متعلقہ نہیں بلکہ ان کے ایندھن کے استعمال کے نظام میں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Nov 09, 2017 07:24pm
اس مسئلے کو عوامی مفاد میں حل کیا جائے نہ کہ ہونڈا ، شیل، پی ایس او اور ٹوٹل مل کر اس پر مک مکا کرلیں۔ خیرخواہ
شیو شنکر مہاجن Nov 09, 2017 09:03pm
’’خیال رہے کہ اس حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہونڈا کی اس گاڑی کا انجن منیجمنٹ سسٹم پاکستانی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے پیٹرول کے مطابق نہیں ہے اور یہی اس گاڑی کے ناکام ہونے کی وجہ بتائی جاتی ہے۔’’ یہ بات پڑھ کر ثابت ہوجاتا ہے کہ گاڑی تو جدید ترین ہے لیکن پٹرول تھرڈ کلاس کیٹگری کا ملنے کی وجہ سے گاڑی خراب ہو رہی ہے۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ ہونڈا والوں نے پاکستانیوں کیلئے فرسٹ ورلڈ کار متعارف تو کرا دی لیکن بیڈ گورننس اور اداروں کے بدنیتی نے گاڑی کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کارکردگی اور بیڈ گورننس کا عالم یہی رہے تو مرسیڈیز تو کیا بینٹلی، پورش اور رولس روئیس جیسی کاریں بھی ناکام ہوجائیں ۔۔۔ پٹرول خراب نہیں گاڑی خراب ہے آپ کی صاحب!