سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل محمد سعید کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) الگ الگ سیاست کریں یا اتحاد کریں یہ ان کی مرضی ہے جبکہ رینجرز کی اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں۔

نجی چینل ’دنیا نیوز‘ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ڈی جی رینجرز نے ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے انضمام کے حوالے سے کہا کہ ’ہم ایسا کچھ نہیں چاہتے، وہ ضم ہوں یا الگ الگ سیاست کریں ہم یہ چاہتے ہیں کہ انتشار یا تصادم نہ ہو، جبکہ 1992 سے 2013 تک والی صورتحال دوبارہ پیدا نہیں ہونی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ستمبر 2013 سے ہمارے ایم کیو ایم سمیت کراچی میں شر پھیلانے والی تمام جماعتوں سے قریبی روابط رہے ہیں، خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کے بعد ہماری ایم کیو ایم رہنماؤں سے ایک ہفتے میں 3 بار ملاقات ہوئی، ہم کسی ایک جماعت کی حمایت نہیں کرتے، دونوں جماعتیں متحد ہو کر سیاست کریں یا الگ الگ رہ کر سیاسی عمل کا حصہ رہیں، یہ ان کا معاملہ ہے، بحیثیت ادارہ ہماری کوئی پالیسی نہیں۔‘

واضح رہے کہ 8 نومبر کو فاروق ستار اور پی ایس پی کے صدر مصطفیٰ کمال نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دونوں جماعتوں کا ’سیاسی اتحاد‘ بنانے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’متحدہ، پی ایس پی اتحاد میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ‘

اگلے ہی روز فاروق ستار نے مصطفیٰ کمال پر شدید تنقید کی اور رابطہ کمیٹی سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا۔

تاہم ایک گھنٹے بعد ہی انہوں نے اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا۔

ایک روز بعد مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت اور ایم کیو ایم پاکستان کے اتحاد کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔

میجر جنرل محمد سعید کا 22 اگست 2016 کی رات ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی گرفتاری اور پھر ایم کیو ایم پاکستان کے وجود میں آنے سے متعلق کہنا تھا کہ ’22 اگست کو میڈیا ہاؤسز پر حملوں میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کیا گیا اور ایک مقدمہ درج کیا گیا، اگر ایم کیو ایم پاکستان اس رات رینجرز ہیڈ کواٹر میں بنائی گئی ہوتی تو کیا آج عدالت میں فاروق ستار، عامر خان اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ چل رہا ہوتا؟‘

مصطفیٰ کمال کی جانب سے ان کے کہنے پر تقریباً 70 لاپتہ افراد کے بازیاب ہونے کے دعوے سے متعلق ڈی جی رینجرز نے کہا کہ ’یہ ان کا اپنا ذاتی خیال ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنوری 2012 سے کراچی میں لاپتہ افراد کے حوالے سے جتنی درخواستیں دائر ہوئیں جن میں اب تک ایک ہزار 48 درخواستیں نمٹائی گئیں، اگر ہم نے 70 افراد کو کسی ایک شخص کے کہنے پر رہا کردیا تو باقیوں کو کس کے کہنے پر رہا کیا گیا۔‘

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کا ایم کیو ایم،پی ایس پی کے اتحاد پر خوشی کا اظہار

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کہیں کوئی قتل یا ہنگامہ ہوجائے تو ہمیشہ ایک سے زائد گرفتاریاں ہوتی ہیں لیکن جو ملوث نہ ہو اسے تفتیش کے بعد رہا کردیا جاتا ہے۔‘

لیاری گینگ وار اور عذیر بلوچ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’کراچی کے لوگوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ لیاری گینگ وار شہر کی تاریخ کا خوفناک پہلو ہے، جس نے صرف لیاری کو باقی کراچی اور پاکستان کے لیے بند نہیں کیا ہوا تھا بلکہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی لیاری میں داخل نہیں ہوسکتے تھے جبکہ لیاری سے نکل کر شرپسند شہر کے دیگر علاقوں کا بھی امن و امان تباہ کرتے تھے، آج حالات بلکل برعکس ہیں اور وہاں امن و امان قائم ہوگیا ہے اور لیاری کا علاقہ بھی پاکستان کے عام علاقوں جیسا ہوچکا ہے۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

riz Nov 14, 2017 09:35am
ایک نئی ایم کیو ایم سندھ اربن کے کی ضرورت ہے، پی پی پی کو اربن ووٹوں کی کوئی پروا نہی جو ان کا ووٹ بینک بتاتا ہے اور پچھلے نو سالوں کی کارکردگی دکھاتی بھی ہے۔ سندھ اربن ووٹر ایک سمجھدار، پڑھا لکھا اور سیاسی تور پر بیدار اور اپنی رائے رکھنے والا ووٹر ہے ایم کیو ایم کی ماضی کی ووٹر فوکس سیاست نے اسے اپنے حقوق کا ادارک کروایا ہے جو کوئی اور جماعت پورا نہی کر سکتی۔ سندھ اربن کو پی پی پی نے شاید نشان عبرت بنانے کا تہیا کر رکھا ہے اور نئی ایم کیو ایم ہی کے پاس وہ بارگین چپ ہے جو وہ صوبائی یا وفاقی گورنمنٹ میں شامل ہو کر اپنے اربن ووٹروں کے جائز حقوق کے کیے کچھ حاصل کر سکے۔