اسلام آباد: احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی۔

نواز شریف، اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے ہمراہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنسز کے سلسلے میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر، شریف خاندان کے خلاف بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق ریفرنسز کی سماعت کررہے ہیں۔

نواز شریف کی جانب سے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی گئی جس میں انہوں نے ایک ہفتے تک عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل کرنے کی استدعا کی۔

سابق وزیرِ اعظم کی درخواست میں موقف اختیا ر کیا گیا کہ ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز لندن کے ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، ان کا اور ان کی اہلیہ کا 40 سال کا ساتھ ہے اور وہ اس مشکل وقت میں اپنی اہلیہ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ کا کیموتھراپی کا اگلہ مرحلہ ہونا ہے جس کی وجہ سے وہ لندن جائیں گے، لہٰذا انہیں 20 نومبر سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دی جائے۔

دوسری جانب مریم نواز نے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے نمائندہ مقرر کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ہنگامی صورتحال میں عدالت میں عدم حاضری پر ان کے نمائندے جہانگیر جدون کو پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔

وکیل استغاثہ نے دونوں ملزمان کی درخواست پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ نہ تو نواز شریف اور نہ ہی مریم نواز بیمار ہیں لہٰذا ان دونوں کو عدالتی کارروائی سے استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا۔

تاہم احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کی درخواست پر انہیں ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دیتے ہوئے ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں پیش ہونے کی اجازت دے دی جبکہ مریم نواز کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے انہیں ایک ماہ کے لیے استثنیٰ دیتے ہوئے ان کے نمائندے جہانگیر جدون کو پیش ہونے کی اجازت دے دی۔

سماعت کے دوران ایون فیلڈ اپارٹمنٹ ریفرنس میں وکیلِ استغاثہ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) کی افسر سدرہ منصور کو بطور گواہ پیش کیا جہاں انہوں نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔

سدرہ منصور نے بتایا کہ وہ 18 اگست 2017 کو نیب لاہور میں تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوچکی ہیں اور نیب کی جانب سے طلب کی جانے والی تمام دستاویزات تفتیشی افسر کو پیش کر چکی ہیں جن پر ان کے دستخط اور انگوٹھے کا نشان بھی موجود ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نیب کو دی گئی دستاویزات میں کورنگ لیٹر کے ساتھ کمپنیوں کی سالانہ آڈٹ رپورٹس شامل ہیں، جس میں حدیبیہ پیپر ملز کی 2000 سے 2005 تک کی آڈٹ رپورٹ بھی موجود ہے۔

وکیل صفائی خواجہ حارث اور امجد پرویز نے سدرہ منصور کی فراہم کردہ دستاویزات پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ فوٹو کاپیاں ہیں ان کی اصل دستاویزات موجود نہیں ہیں جس پر وکیل استغاثہ نے کہا کہ نیب آرڈیننس کے مطابق فوٹو کاپیاں ہی ضروری ہوتی ہیں۔

گواہ سدرہ منصور نے کہا کہ یہ کاپیاں کمپنیز کی جانب سے ایس ای سی پی کو فراہم کی گئیں جس پر خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ ان دستاویزات پر کمپنیز کی مہر یا سیل موجود نہیں ہے جس کے جواب میں سدرہ منصور نے کہا کہ ’جی، نہیں ہیں اور یہ (مہر) ضروری بھی نہیں ہے‘۔

سدرہ منصور نے اپنے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ 2000 سے 2005 تک کے آڈٹ کے دوران حدیبیہ پیپر ملز کے اکاؤنٹ میں 49 لاکھ 46 ہزار کی ہی رقم موجود رہی۔

سدرہ منصور نے عدالت میں اپنا بیان دیتے ہوئے نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے کمپنی شیئرز کی تفصیلات بھی فراہم کردیں۔

عدالت نے حسن نواز اور حسین نواز کی مفرور کی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے کیس کی سماعت کو 22 نومبر تک کے لیے ملتوی کردیا۔

احتساب عدالت کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ان کے خلاف جو عدالتی فیصلوں میں زبان استعمال ہو رہی ہے وہ ان کے سیاسی مخالفین استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا ’سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی پٹیشن کا جو فیصلہ آیا وہ ایک فیصلہ نہیں بلکہ نیب عدالت کو ایک پیغام تھا کہ نواز شریف کو ہر قیمت پر سزا دینی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کے جج صاحبان نے انہیں سزا دی نہیں بلکہ ان کو سزا دلوائی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ نواز شریف فردِ جرم عائد ہونے کے بعد احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور باقاعدہ ٹرائل کا آغاز ہوا۔

سابق وزیراعظم کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) میں اور اس کے اطراف سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا نام ایون فیلڈ ایونیو میں موجود فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے نیب کو 6 ہفتوں کے اندر شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی، تاہم نیب نے 8 ستمبر کو عدالت میں ریفرنسز دائر کیے تھے۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں