اسلام آباد: اعلیٰ حکومتی سطح پر وفاقی وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کو ان کے عہدے سے تبدیل کیے جانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ موجودہ صورتحال میں حکومت کے پاس اسحٰق ڈار کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے سوا دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں ہے اور یہ فیصلہ بھی سابق وزیرِاعظم پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی رضامندی کے بعد لیا جارہا ہے۔

تاہم ذرائع نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ اسحٰق ڈار کے بعد ایک مشیر خزانہ کا تقرر کیا جائے گا یا پھر رکن قومی اسمبلی میں سے ایک باقاعدہ وزیر نامزد کیا جائے گا جبکہ انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ اس عہدے کے لیے ایک غیر منتخب نمائندے کا تقرر کیا سکتا ہے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ اس مشاورت کے لیے فہرست بھی تیار کی جا چکی ہے جس میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں وزیرِ خزانہ رہنے والے شوکت ترین اور سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عہدے پر فائز رہنے والے عشرت حسین کے نام سرِ فہرست ہیں۔

علاوہ ازیں اس فہرست میں مزید نام بھی موجود ہیں جو ذرائع نے بتانے سے گریز کیے۔

مزید پڑھیں: حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس: نیب کا اسحٰق ڈار کے خلاف دوبارہ تحقیقات کا فیصلہ

تاہم حکومتی عہدیداران اور میڈیا میں جاری قیاس آرائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی برائے معاشی امور مفتاح اسمٰعیل کا نام اور 2 وزارتیں رکھنے والے احسن اقبال کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے تاہم وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کو تبدیل کیے جانے کا حتمی فیصلہ ابھی لینا باقی ہے۔

شوکت ترین نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ یا مشیرِ خزانہ بنانے کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'حکومتی ارکان کی جانب سے مجھ سے اس معاملے پر اب تک رابطہ نہیں کیا گیا'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اس حوالے سے میرا موقف بالکل واضح ہے، میں وزیرِ خزانہ یا مشیر نہیں بننا چاہتا لیکن اگر کسی اور معاملے میں کسی کونسل یا کمیٹی کے حوالے سے مجھ سے مدد طلب کی گئی تو میں اس پر غور کروں گا لیکن اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ کونسل یا کمیٹی میں مزید کون کون ممبر ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'اگر کونسل یا کمیٹی میں ’بیکار‘ ممبران ہوں گے تو اس میں میری مدد کا کوئی جواز نہیں'۔

ذرائع کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت بیوروکریسی کی صورتحال بھی بے چینی کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'وزارتِ خزانہ میں موجود کسی بیوروکریٹ میں معاملہ آگے بڑھانے کی ہمت نہیں جس کی وجہ سے یہ فیصلہ تعطل کا شکار ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) میں بھی اس وقت افرا تفری کا عالم ہے کیوںکہ ایف بی آر کے چیئرمین طارق پاشا پریس کو دیئے گئے بنانیے جیسے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی اسحٰق ڈار سے مشاورت کرنے لگے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ طارق پاشا نے وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کے ساتھ کام کیا ہے اور وہ دونوں بہت قریبی ساتھی تصور کیے جاتے ہیں جبکہ ان کو بھی تبدیل کیے جانے کے امکانات ہیں کیونکہ نئے وزیرِ خزانہ اپنی ٹیم لے کر آئیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کی اسحٰق ڈار کا نام ’ای سی ایل‘ میں ڈالنے کی سفارش

خیال رہے کہ اسحٰق ڈار پر سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے کی روشنی میں پر 27 ستمبر کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کرپشن ریفرنسز میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

تاہم مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کے باوجود بھی اسحٰق ڈار وزیرِ خزانہ کے عہدے پر فائز ہیں۔

14 نومبر کو احتساب عدالت کی جانب سے وزیرِ خزانہ کی عدالت سے غیر حاضری پر ان کے خلاف نا قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ احتساب عدالت میں وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثے بنانے پر کرپشن ریفرنسز کی سماعت جاری ہے۔


یہ خبر 18 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں