سینیٹرز کی غیر حاضری، 24ویں ترمیم منظور نہ ہوسکی

چوبیسویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ سے منظور نہ ہوسکا، فوٹو / ڈان
چوبیسویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ سے منظور نہ ہوسکا، فوٹو / ڈان

اسلام آباد: گزشتہ روز (17 نومبر کو) سینیٹ اجلاس کے دوران اراکینِ پارلیمنٹ کی غیر حاضری کے سبب سینیٹ میں 24ویں آئینی ترمیم بل پر ووٹنگ نہیں ہوسکی جسے ایک روز قبل قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا۔

حکومتی جماعت کے کچھ اراکینِ قومی اسمبلی نے الزام عائد کیا کہ ’انہیں نامعلوم فون نمبروں سے کال کر کے دھمکیاں دی گئیں کہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کریں۔

سینیٹ اراکین کی دو تہائی اکثریت کی غیر حاضری کی وجہ سے 24ویں آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ نہیں کی جاسکی جو 2018 کے عام انتخابات کا وقت پر کروانے کا واحد راستہ ہے۔

سینیٹ کے 104 میں سے کُل 58 اراکین اجلاس میں حاضر ہوئے جس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں اور صوبائی سطح پر کی جانے والی مردم شماری کے بعد قومی اسمبلی کی نشتوں کی تعداد میں تبدیلی کا بل متعارف نہیں کروایا جاسکا جس نے چیئرمین سینیٹ کو اجلاس پیر تک ملتوی کرنے پر مجبور کردیا۔

مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات بل سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی منظور

آئینی ترمیم کے بل کی منظوری کے لیے ایوان میں کُل 69 اراکین کی حاضری کی ضرورت ہے۔

جب بل ایوان میں پیش کیا گیا تو اس وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 7 سینیٹرز میں سے ایک بھی سینیٹر ایوان بالا میں موجود نہیں تھا جبکہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے 8 میں سے صرف 2 ہی اراکین ایوان بالا میں حاضر تھے اور فاٹا سے منتخب ہونے والے 8 سینیٹرز میں سے 2 ہی اراکین اجلاس میں شریک تھے۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے مرتضیٰ وہاب، شیری رحمان، ڈاکٹر کریم خواجہ، ہرم رام، سسی پلیجو، گیان چند، روزی خان، کاکڑ اور یوسف بندین جبکہ مسلم لیگ (ن) کے اسحٰق ڈار، مشاہد اللہ خان، سردار یعقوب ناصر، پروفیسر ساجد میر، ذوالفقار کھوسہ، نعمت اللہ زہری اور اصغر شاہزیب درانی غیر حاضر تھے۔

علاوہ ازیں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے شاہی سید، ستارہ ایاز اور زاہدہ خان جبکہ مسلم لیگ (ق) کی روبینہ عرفان بھی اجلاس سے غیر حاضر رہیں۔

تاہم ایوان نے الیکشن ایکٹ 2017 کا بل منظور کیا تھا جس میں ختم نبوت کی شرط اور امیدوار کے فارم کو دوبارہ اصلی حالت میں بحال کرنے کے قوانین شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سپریم کورٹ میں چیلنج

ایوان کی منظوری کے بعد عام انتخابات کے بل (آرڈر) کی شق 7 بی اور 7 سی کو اصلی حالت میں بحال کردیا گیا۔

وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 24ویں آئینی ترمیم کا بل پیر کے روز سینیٹ سے منظور ہوجائے گا۔

مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی کو دھمکیاں

قومی اسمبلی میں جمعرات کے روز بل کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں مسلم لیگ (ن) کے 2 درجن سے زائد اراکین غیر حاضر رہے، قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق 265 اراکین نے اجلاس میں شرکت کی مگر 243 نے بل کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ ڈالے۔

وفاقی وزیرِ خارجہ خواجہ آصف، وفاقی وزیرِ پانی و بجلی عابد شیر علی، وزیرِ تجارت پرویز ملک بھی اجلاس سے غیر حاضر رہے۔

مسلم لیگ ن نے جمعے (17 نومبر) کے روز اجلاس میں اراکین پارلیمنٹ کی غیر حاضری پر حکمراں جماعت نے نوٹس لیتے ہوئے ضابطہ اخلاق کی کارروائی کا فیصلہ کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے رکنِ قومی اسمبلی میاں عبدالمنان کا ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 41 اراکین لاپتہ ہیں جن میں سے 4 بیمار، 12 بیرونِ ملک اور 10 اجلاس کے وقت پر پارلیمنٹ نہیں پہنچ سکے۔

انہوں نے ’نامعلوم نمبروں‘ سے آنے والی کالز کے بارے میں جمعے کو ایوان کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا ’20 سے زائد جماعتوں کے اراکین کو دھمکی آمیز کالز موصول ہوئیں جس میں اُن سے کہا گیا کہ اجلاس میں شرکت نہ کریں‘۔

اسے بھی پڑھیں: 23 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے دفتر میں ہونے والے اجلاس کا گواہ ہوں جہاں 15 سے 20 اراکین نے نامعلوم نمبروں سے دھمکی آمیز کال کے حوالے سے اپنی شکایات درج کرائیں‘۔

میاں عبدالمنان نے دعویٰ کیا کہ جمعے کے روز وزیراعظم نے اجلاس طلب کیا تھا مگر وہ اپنے ساتھ بیٹھنے والے اراکین کی غیر حاضری دیکھ کر حیران رہ گئے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود ٹریفک جام میں پھنس گئے تھے اس وجہ پارلیمنٹ ہاؤس نہیں پہنچ سکے اور ووٹنگ کے عمل سے غیر حاضر رہے۔

تاہم کورم مکمل نہ ہونے اور اراکین کے غیر حاضر ہونے کی نشاندہی پر اجلاس پیر تک ملتوی ہوگیا۔


یہ خبر 18 نومبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں