ٹیکسلا: پنجاب کے محکمہ آثار قدیمہ اور عجائب گھر نے سرکپ کے عالمی ثقافتی ورثہ سے اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم ( یونیسکو) کی جانب سے 1980 میں محفوظ قرار دیے گئے لاکھوں روپے مالیت کے نوادرات کی چوری کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی۔

اس حوالے سے محکمے کے ڈائریکٹر جنرل چوہدری محمد اعجاز نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو سرکپ سے چوری ہونے والے لاکھوں روپے مالیت کے سونے کے زیورات کی تحقیقات کرے گی جبکہ کمیٹی کے سربراہ محکمے کے ڈائریکٹرز میں سے کسی ایک کو مقرر کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ سرکپ، ٹیکسلا کے دوسرے شہر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، جو دوسری صدی قبل مسیح سے دوسری صدی عیسویں کا ایک قدیم شہر تھا۔

چوہدری اعجاز نے بتایا کہ کمیٹی اس بات کی تحقیق کررہی ہے کہ ماہرِ آثارِ قدیمہ کی غیر موجودگی میں تحفظ کا کام کیوں کیا جارہا تھا۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی سے قیمتی نوادرات 'چوری'

دریں اثناء ٹیکسلا میں محکمہ کے ذیلی دفتر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ارشاد حسین نے بتایا کہ پولیس نے چوری کے شبہ میں چھ مزدوروں سعید، شیراز، امجد، یاسر، انجمن اور فیضان کو گرفتار کیا اور5 دن انہیں ریمانڈ پر رکھا، تاہم چوری شدہ نوادرات برآمد نہیں ہوسکے۔

چوری شدہ نوادرات میں مختلف رنگوں کے پتھروں سے جڑے ہار، چوڑیاں اور دیگر زیورات شامل ہیں جو اپنے وقت کی شاندار کاریگری کی مثال تھے۔

اس سے قبل محکمہ آثار قدیمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ انہوں نے قریبی گاؤں سے تعلق رکھنے والے کچھ مزدوروں کو پکڑا ہے جن کے پاس سے کچھ کان کی بالیاں، چوڑی اور کچھ سونے کا حصہ برآمد ہوا۔

دوسری جانب محکمہ آثار قدیمہ اور عجائب گھر کے کچھ اہلکاروں نے اس بات پر خدشہ ظاہر کیا کہ پولیس معاملے پر پردہ ڈال رہی ہے کیونکہ جب مزدور پولیس کی حراست میں تھے تو کوئی سامان برآمد نہیں ہوا تھا۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے سرکپ میں قدیم آثار قدیمہ کی بحالی کے لیے ایک مقامی ٹھیکیدار کو اس کا ٹھیکہ سونپا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جمال گڑھی کے آثار قدیمہ توجہ چاہتے ہیں

ذرائع کے مطابق گذشتہ ہفتے 12 نومبر کو تحفظ کے کام کے دوران اطلس مندر کے پیچھے مشرقی حصے میں واقع ایک رہائشی عمارت کی باقیات سے گھاس ہٹانے کے دوران کچھ مزدوروں کو بالیاں، چوڑیاں، نِکل اور دیگر چھوٹے سونے کے زیورات ملے تھے جنہیں مبینہ طور پر چرا لیا گیا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق ان زیورات کا وزن ایک کلو گرام کے برابر تھا۔

چوری کے بعد مزدوروں نے مقامی آثارِ قدیمہ کے ڈیلر سے چوری شدہ زیورات کے لیے سودے بازی کی، تاہم اس سودے بازے کی اطلاعات کے بعد محکمہ آثارِ قدیمہ کے حکام نے پولیس سے رابطہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ اس قدیم شہر کی پہلی دفعہ کھدائی 1930-1912 کے درمیان سر جان مارشل کی زیرِ نگرانی ہوئی تھی جس میں سونے کے زیورات برآمد ہوئے تھے۔

اس وقت یہ زیورات ٹیکسلا کے میوزم میں نمائش کے لیے رکھے ہوئے ہیں، تاہم 87 برس گزرجانے کے بعد بھی اس شہر کی دوبارہ کھدائی نہیں کرائی گئی جبکہ اس دوران اس مقام سے مختلف نوادرات چوری ہوچکے ہیں۔


یہ خبر 19 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں