لاہور: قومی احتساب بیورو (نیب) نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شہباز شریف انتظامیہ کی جانب سے قائم 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے مبینہ کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام میں مکمل تحقیقات کرے گا۔

اس بات کا فیصلہ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے ان کمپنیوں کے خلاف متعدد شکایات دائر کیے جانے کے بعد کیا گیا۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب لاہور کے چیئرمین شہزاد سلیم کو حکم دیا کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی زیر نگرانی میں مذکورہ کمپنیوں میں مبینہ دھاندلی، نوکریوں میں قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی، مختلف منصوبوں کی وقت پر عدم تکمیل، کارکردگی میں کمی اور باقاعدگی سے آڈٹ نہ کرانے جبکہ ان کمپنیوں میں غیر شفاف طریقہ کار استعمال کرنے کی تحقیقات کریں۔

گذشتہ روز جاری ایک بیان میں چیئرمین نیب نے حکام کو ہدایات دیں تھی کہ ان کمپنیوں کو جب تک کام سے نہ روکا جائے جب تک ان کے خلاف ٹھوس ثبوت جمع نہ ہوجائیں۔

مزید پڑھیں: 'شہباز شریف کو وزیراعظم کا امیدوار بنانا سیاسی فیصلہ ہے'

انہوں نے ہدایات دیں کہ تحقیقات کے دوران قانونی طریقہ کار اختیار کیا جائے۔

اس حوالے سے ڈان کو سرکاری ذرائع نے بتایا کہ نیب چاہتی ہے کہ وہ جلد تحقیقات مکمل کریں کیونکہ شہباز شریف ان کمپنیوں کے چیئرمین ہیں اور اگر تحقیقات کے دوران کوئی غیر قانونی چیز ثابت ہوجاتی ہے تو انہیں کیسز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس حوالے سے پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے ڈان کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

واضح رہے کہ ان کمپنیوں کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست زیر التواء ہے۔

درخواست گزار کے مطابق شہباز شریف انتظامیہ نے 9 سال قبل ’’گڈ گورننس‘‘ کے بہانے 56 پبلک سیکٹر کمپنیاں قائم کی تھیں، جس پر خزانے سے 150 ارب روپے سے زائد خرچ کیے گئے تھے۔

یہ گورنس کا ماڈل شہباز شریف کی سوچ تھی، جو ترکی ماڈل سے متاثر ہوکر اسے یہاں لانا چاہتے تھے، یہی وجہ تھی کہ مختلف کمپنیوں میں ترکی کے لوگوں کو کنسلٹنٹ مقرر کیا گیا اور اب یہ لوگ مختلف میگا پروجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کیلئے تحقیقات کا آغاز

درخواست گزار نے بتایا کہ یہ تمام پبلک سیکٹر کمپنیاں اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہیں، جبکہ 2016 میں ان کمپنیوں کی تعداد 6 سے بڑھا کر 56 کردی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ان کمپنیوں کے اخراجات 250 ارب روپے تھے لیکن آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے کارکردگی کے آڈٹ کے علاوہ ان کمپنیوں کی جانب سے کبھی آڈٹ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ کمپنیوں کے حکام کی بڑی تنخواہوں اور مراعات کے باوجود ان کمپنیوں نے کبھی اپنی سالانہ آڈٹ رپورٹ بھی شائع نہیں کی۔


یہ خبر 19 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں