زمبابوے میں فوج اور صدر کے درمیان جاری تنازع کے دوران حکمراں جماعت زمبابوے افریقن نیشنل یونین-پیٹریاٹک فرنٹ (زیڈ اے ایف این یو-پی ایف) نے رابرٹ موگابے کو پارٹی کی صدارت سے ہٹا کر ان کے سابق نائب صدر ایمرسن منانگیگوا کو نیا صدر منتخب کرلیا۔

اے ایف پی کے مطابق حکمراں جماعت کے ایک وفد کا کہنا تھا کہ 'صدر کے انتخاب کے لیے ایک قرارداد پیش کی گئی اور منانگیگوا کو پارٹی صدارت دی گئی'۔

خیال رہے کہ فوج کی جانب سے ان کے استعفے کے لیے شدید دباؤ کے بعد رابرٹ موگابے کی 37 سالہ حکمرانی کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔

رابرٹ موگابے کی حکمرانی پر گرفت گزشتہ ہفتے اس وقت ٹوٹ گئی تھی جب ان کی اہلیہ گریس زمبابوے کی حکمرانی کے لیے متبادل کے طور پر سامنے آنے پر فوج نے مداخلت کی تھی۔

مزید پڑھیں:زمبابوے: ٹینکوں سمیت فوج کی دارالحکومت پر چڑھائی

93 سالہ رابرٹ موگابے اس وقت دنیا کے معمر ترین سربراہ ریاست ہیں۔

زمبابوے کے عوام کی جانب سے ایک روز قبل ہی رابرٹ موگابے کے خلاف شدید احتجاج اور ملک میں شخصی حکمرانی کے دور کے خاتمے پر پرامن جشن منایا تھا۔

حکمراں جماعت کے ایک عہدیدار اوبرٹ پوفو نے رابرٹ موگابے کی صدارت کے خاتمے کے حوالے سے کہا کہ 'آج یہاں پر ہمارا اجلاس بوجھل دل کے ساتھ ہوا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے عوام کا مطالبہ ہے کہ نیا صدر بنایا جائے اور پارٹی سے پہلا سیکریٹری منتخب کیا جائے'۔

قبل ازیں حکمراں جماعت کی بااثر یوتھ لیگ نے رابرٹ موگابے کے حوالے سے اپنے موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے اور ان کی اہلیہ گریس کو پارٹی سے نکال دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

تاریخی ہفتہ

زمبابوے کے لیے گزشتہ ہفتہ بڑا تاریخی گزرار جب فوج نے صدر رابرٹ موگابے کی جانب سے اپنی 52 سالہ اہلیہ گریس کے سیاسی حریف ایمرسن منانگیگوا کو نائب صدر کے عہدے سے ہٹانے پر اقتدار کو ہاتھ میں لیتے ہوئے موگابے کو نظر بند کردیا۔

زمبابوے کے عوام نے گزشتہ روز سڑکوں پر نکل کر جشن منایا جو 1980 میں زمبابوے کی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا گیا جہاں عوام نے ہرارے اور دیگر بڑے شہروں میں نعرے لگاتے ہوئے مارچ کیا۔

احتجاجی مارچ میں مختلف عمروں سے تعلق رکھنے والے شہری موجود تھے جو موگابے کے اخراج پر خوشی کا اظہار کررہے تھے۔

ہرارے کے وسطی علاقے میں نوجوانوں کے ایک گروہ نے رابرٹ موگابے کے نام سے موسوم اسٹریٹ کی جانب اشارہ کرنے والی سبز رنگ کی تختی کو توڑ دی۔

یاد رہے کہ اسی طرح کے واقعات کو ایک ہفتہ قبل ہی سیکیورٹی فورسز بری طرح روند ڈالتے تھے۔

ذرائع کا خیال ہے کہ موگابے کی جانب سے استعفے میں تاخیر اور اپنے اور خاندان کے تحفظ کے لیے ایک معاہدے کی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ جانشینی کی دوڈ میں منانگیگوا سے تنازع کو کیچھوے کی چال سے تعبیر کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب 'جنریشن 40' یا 'جی 40' نامی گروپ جو زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے، گریس کے مقاصد کی حمایت کرتا ہے۔

رابرٹ موگابے نے فروری میں اپنی 93 ویں سالگرہ کے موقع پر گریس کے حوالے سے کہا تھا کہ 'وہ قابل قبول ہیں اور عوام کی جانب سے بھی قبول کیا گیا ہے'۔

زمبابوے کے صدر کو افریقہ کے مختلف حصوں میں براعظم کے آزادی کے آخری ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن ان کی صحت کی خرابی میں اضافہ ہورہا ہے تاہم انھوں نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ اگلے سال کے انتخابات میں حصہ لیں گے اور 100 سال کی عمر تک بدستور اقتدار میں رہنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

یاد رہے کہ رابرٹ موگابے 1980 میں زمبابوے کی برطانیہ سے آزادی کے بعد پہلے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور 1987 میں صدر بن گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں